سفرنامہ ملیشیا

فہرست

سفرنامہ ملیشیا

۲۰۱۹ میں یونیورسٹی کی طرف سے ہم ملیشیا مدعو ہوئے۔ اس ایک دن کی تقریب کے آگے پیچھے سفر کو پندرہ دن کی طول دی جس میں رونما ہونے والے تمام تر واقعات اس سفرنامے میں بتفصیل قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔

جولائی ۲۷، ۲۰۲۱



قبل از سفر

ہر سال موسمِ خزاں میں یونیورسٹی چند مرغے تلاشتی ہے جو اگلے ۳ سال میں رفتہ رفتہ حلال ہوتے ہیں۔ کچھ دانشجو شبِ دیجور میں تھوڑا زیادہ وقت صرف کرتے ہیں اور اکثر مضامین میں متعدد بار امتحانات دے کر اپنا مطالعہ وسیع کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کو کچھ ایسے طلباء کی ہی تلاش تھی جو اگلی دہائی تک اساتذہ کے رزق کا ذریعہ بنیں۔ ہم ضرورت سے بڑھ کر تو ہونہار نہیں البتہ ان دنوں فالتو پیسے کی بہتات تھی جس کے سبب ۳ سال کا رشتہ بھی بھاری محسوس کر رہے تھے۔ سند کی قدر ہم پر عیاں تھی لہٰذا ہم تقریباً قائل ہو چکے تھے۔ مزید قائل کرنے کے لیے ہمیں بیرونِ ملک جانے کا ایک خواب دکھایا گیا جو کبھی ہمارے وہم و گمان سے بھی نہ گزرا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ٹوپی اچھالنے کی تقریب ملیشیا میں ہوگی۔ بھولے پن میں یہ گمان کر بیٹھے کہ ادارہ سفر سے متعلق انتظامات بھی کروا دے گا۔ پھر رفتہ رفتہ واقفیت بڑھی تو احساس ہوا کہ ہمیں وقت پر ڈگڑی ہی مل جائے تو ہم ان کے احسان مند رہیں گے۔ بیرونِ ملک جانے کی آس ٹوٹتی جا رہی تھی۔ ملیشیا جانا اب محظ ایک خواب لگنے لگا تھا۔

دو سال گزر گئے۔ اب تک تو اس خواب کو بھول بھی چکے تھے۔ پھر ۲۰۱۸ میں ہمارے سینئر ایک گروپ کی صورت میں ملیشیا گئے۔ ہمارے خواب کسی اور کو پورا کرتے دیکھ کر ہمیں افسوس ہوا۔ ان کی کہانیوں اور تصاویر نے ہمارے اندر کے مسافر کو پھر سے جگانا چاہا۔ اس خواب پر عملی اقدام اٹھانے کے لیے ایک روز احباب کو چائے کوٹھے پر جمع کیا اور تجویز پیش کی۔ ایک طویل فلسفیانہ گفتگو کے بعد وقتی طور پر سب پرجوش معلوم ہوئے اور ہماری امیدیں مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔ خود کو تو سفر کے لیے قائل کر ہی چکے تھے، اب سفر سے متعلق تمام تر اخراجات کا اندازہ لگایا۔ ایک سال میں اس قدر رقم جمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان نجی تیاریوں کے بعد اب گھر والوں کو قائل کرنا تھا۔ ہماری منصوبہ بندی دیکھ کر وہ بھی خوش ہوئے اور اجازت دے دی۔ ذہنی طور پر سفر سے پہلے کی تمام تر تیاریاں کرنے کے بعد احباب سے پھر ملاقات ہوئی۔ جذبہ ان کا ویسا ہی تھا البتہ منصوبہ بندی میں کچھ سستی نظر آرہی تھی۔ ہم ہی نادان کہ ان کے ارادوں کو سنجیدہ سمجھ بیٹھے تھے۔ کچھ عرصہ مزید گزر گیا، ان کی منصوبہ بندی اب بھی ابتدائی مراحل ہی طے کر رہی تھی۔ مایوس ہو کر ہم نے اب اکیلے جانے کے ارادے سے باقی کی تیاریاں کرنا شروع کر دیں۔

کنووکیشن سے چند ماہ قبل اطلاع ملی کہ تین احباب تیار ہو چکے ہیں ۔ مگر ان کے ارادے یقینی ہونے سے قبل ہم اپنی رہائش کا انتظام کر چکے تھے۔ ہوٹل انتظامیہ سے رابطہ کر کے ترمیم چاہی تو ترتیب کچھ یوں بنی کہ ۳ حضرات ایک ہوٹل میں رکیں گے اور چوتھا فرد ایک الگ ہوٹل "G Towers" میں قیام پذیر ہوگا۔ یہ ترتیب البتہ محظ ویزا لینے کی حد تک تھی۔



سفر كا دن: ستمبر ۸
بروز اتوار

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ خوشی کے سبب رات بھر نیند نہ آئی مگر طبیعت میں پھر بھی تازگی محسوس کر رہے تھے۔ آج اتوار کا دن تھا۔ تاریخ ۸ ستمبر تھی۔ اس روز کا گزشتہ دو ماہ سے بے صبری سے انتظار تھا۔ آج مبشر (میں)، حنین، طہٰ اور عبدالسلام کے سفرِ ملیشیا کا آغاز تھا۔ ہماری ائیر پورٹ پر ملاقات ہوئی۔ سامان چیک ان کروایا، اہل و عیال کو الوداع اور جہاز کو لبّیک کہا۔ یوں تو مدینہ سے کوالہ لمپور کا سفر ۱۰ گھنٹوں کا ہے مگر ہمیں ائیرپورٹ سے دلی لگاو ہے لہٰذا دبئی میں ۷ گھنٹے کے مزید لے اوور کا انتخاب کیا۔

کامیاب سفر کے عناصر میں سرِ فہرست اچھے ساتھیوں کا ہونا ہے۔ اچھے ساتھیوں سے مراد یہ نہیں کہ تمام کا اندازِ فکر یکساں ہو، بلکہ آپس میں باہمی احترام اور طبیعت میں سمجھوتا کرنے کی صلاحیت ہو۔ خوش نصیبی سے ہمارے گروم میں یہ عنصر پایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ خوش مزاجی اور طنز و مزاح سے بھی سب کی واقفیت تھی۔ البتہ بعض اوقات مذاق مستی بھاری بھی پڑ سکتی ہے، اسی خوف کے ساتھ ہم نے طہٰ سے اس وقت ناتعلقی کا اظہار کیا جب ان کو جہاز میں کرسی نمبر "4C" پسند آ گئی اور بآوازِ بلند C4 کہاں ہے جیسے جملے دہرا رہے تھے۔

وقت کیسے گزرا پتہ نہیں چلا۔ ابتدائے سفر میں ہم "یہ جوانی پھر نہیں آنی ۲" سے لطف اندوز ہوئے۔ قریب تھا کہ طہٰ کی بیتابی ہمیں پھر لے ڈوبتی۔ انہوں نے جلد بازی میں ہیڈفون کا تار 110v کے سوکٹ میں ڈال دیا اور حیرت کے ساتھ کہنے لگے کہ واصی چودھری فلم میں گونگے کیوں محسوس ہو رہے ہیں۔

دبئی ایئرپورٹ پر ہمیں سات گھنٹے گزارنے تھے۔ ہمارے گرد و نواح کی عوام کو یہ یقیناً سات صدیاں محسوس ہوئے ہونگے۔ ہم نے ائیرپورٹ کا چپہ چپہ گھومنے کا عزم باندھا تھا۔ ٹرین، گاڑی، ایسکیلیٹر، لفٹ؛ تمام موجود ذرائع کا استعمال ضروری جانا۔ کاندھے پر سات کلو کے بیک پیک نے تقریباً کمر توڑ ہی دی تھی۔ تین گھنٹے گھوم پھر کر بالآخر ہم نے امارات لاؤنج کی سہولت سے استفادہ حاصل کیا اور آرام کو ترجیح دی۔ لاؤنج میں ہر طرح کی سہولیات تھیں۔ بَیَک وقت ناشتہ، ظہرانہ اور عشائیہ کے کھانے بمع مشروبات دستیاب تھے۔ شوقین حضرات کے لیے نشہ آور مشروبات کا بھی انتظام تھا۔ ایک جز بزنس مین حضرات کے لیے بھی مخصص تھا جہاں کمپیوٹرز پرنٹرز وغیرہ کی سہولیات میسر تھیں۔ فرصت کی فراوانی تھی اور کفرانِ نعمت کے ہم قائل نہیں، لہٰذا تمام سہولیات کو استعمال کرنا ضروری جانا۔ کھیل کود اور کھانے پینے کے بعد اب جسم نے آرام کی فرمائش کی تو ان بستر نما کرسیوں پر لیٹ گئے اور آئندہ کے سفر کے لیے درکار طوانائی کی خاطر سو گئے۔



پہلا دن: ستمبر ۹
بروز پیر

رات کے لگ بھگ دو بجے تھے۔ ہماری اگلی پرواز کا وقت آ چکا تھا۔ اس مختصر سے آرام نے بھرپور قوت دے دی تھی۔ اب کی بار ہماری سیٹیں الگ الگ تھیں اور پڑوسیوں نے اسے ہی بہتر جانتے ہوئے تبادلے سے انکار کر دیا۔ کلاس روم کے اساتذہ بھی اسی غلط فہمی کا شکار رہتے تھے کہ شاید دوست یار اتنا قریب بیٹھنے کے سبب بحرِ علم میں ٹھیک سے غوطہ نہیں لگا پا رہے، ہر آئے دن جگہیں بدلی جاتی تھیں۔ شاید اس حقیقت کو وہ نظرانداز کر دیتے تھے کہ علاقے بدلنے سے بھلا ارادے کہاں بدلتے ہیں۔ سات گھنٹے کی فلائٹ میں ہم نے سیٹ ٹو سیٹ کالنگ سروس کا کم از کم ۳ گھنٹے استعمال کیا ہوگا۔ ہمارے پڑوسی آنکھوں ہی آنکھوں میں ہمارا قتل، بلکہ ہمیں زندہ گاڑ چکے تھے۔

یوں تو امارات ایئرلانز کی مہمان نوازی سے ہماری پرانی واقفیت تھی مگر لمبے سفر کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ کھانے کے دور کے بعد ہم اس سوچ میں تھے کہ بھلا وقت کیسے کاٹیں۔ کچھ دیر ہاشم ندیم کا ناول 'بچپن کا دسمبر' پڑھا، تھوڑا وقت فلموں ڈراموں میں گزارا، پھر سفر سے متعلق منصوبہ بندی میں خود کو مصروف رکھا، بقایا وقت جہاز کی چھت پر بنے مصنوعی ستاروں پر ٹکٹکی باندھے خیالی دنیا میں فکرِ سخن کرتے رہے۔ انہیں سوچوں میں نیند کا غلبہ حاوی ہوا تو دیکھتے ہیں کہ ایک مانوس چہرا، رخِ انور پر مسکراہٹ بکھیرے ہماری طرف کو آ رہا ہے۔ ہم اسی لمحے سمجھ گئے کہ خواب کی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں ورنہ جاگتی دنیا میں محبت کا فقدان ایسے مناظر کہاں دکھاتا ہے۔ پھر یہ خیال گزرا کہ خواب میں نظر آنے والے لوگ تو عموماً کسی حقیقی شخص کا پرتو ہوتے ہیں، اور ہماری زندگی کے ہمسفر کی کرسی تو صدیوں سے خالی اور مکڑی کے جالوں میں جکڑی ہے تو یہ بھلا کون محترمہ ہیں جو بے اجازت اتنی بے تکلفی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ آنکھیں مَلیں تو اُن کے ایک ہاتھ میں جام اور دوسرے میں پیمانہ نظر آیا۔ ساتھ ہی کچھ گنگنانے کی ہلکی سی آواز بھی محسوس ہوئی۔ پہلے لگا دل کی دھڑکن رفتار پکڑ رہی ہے، پھر خیال آیا کہ شاید محترمہ سخن گوئی چاہ رہی ہیں۔ کان دھرے تو کچھ وضاحت ہوئی:
"would you like some orange juice, sir?"
مشروبات کے دورے پورے سفر چلتے رہے۔ شاید امارات اس دن ٹائم ٹریول کر گیا تھا یوں محسوس ہوا کہ چند ہی لمحوں میں ہم ہزاروں میل کا سفر طے کر چکے ہیں۔

ایئرپورٹ سے نکلتے نکلتے شام کے پانچ بج چکے تھے۔ ہوٹل تک کا رستہ ایک گھنٹے کا تھا۔ ملیشیا کی سرسبز و شاداب سڑکیں دیکھتے دیکھتے کب ہوٹل پہنچے پتہ ہی نہ چلا۔ ہر سڑک ہر گلی ہر کنارے پر ہریالی تھی۔ بلند و بالا درختوں میں جکڑی یہ صاف ستھری سڑکیں خزاں کے موسم میں بھی سردیوں کی سی ادا لیے بچھی ہوئی تھیں۔ لوگ بھی قانون کے پاسدار دکھائی دے رہے تھے۔ قانون کی اس قدر پاسداری کے مناظر ہمارے لیے نئے تھے۔

ہمارا کمرہ ہوٹل کی تیرھویں منزل پر تھا۔ ہم تو مزید بلندی پر استقامت چاہتے تھے مگر اس کے لیے بجٹ بھی اونچا درکار تھا۔ ہم نے "Air Bnb" سے بکنگ کروائی تھی لہٰذا چابی ہوٹل لابی سے نہیں بلکہ پاس موجود ایک لوکر روم میں رکھی ہوئی تھی جس کا پاسورڈ ہمیں بکنگ کے وقت دے دیا گیا تھا۔ جیمز بونڈ کی طرح لوکر کھولا، چابی نکالی، لفٹ پر 'کی کارڈ' اسکین کیا اور لفٹ نے منزلِ مقصود تک پہنچا دیا۔ یوں تو ہم ٹیکلولوجی کی دنیا کے جانے مانے باشندے ہیں مگر اس طرح کی ٹیکنولوجی کا ہر چھوٹی بڑی جگہ پر استعمال دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ چند ہی گھنٹے ملیشیا دیکھا تھا اور ابھی سے اس پر فدا ہو ئے جا رہے تھے۔

جسم اب آرام مانگ رہا تھا مگر دل بے چینی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ہمیں اطلاع تھی کہ رات ۱۰ بجے "infinity pool" بند کر دیا جاتا ہے۔ تیراکی کا لباس زیبِ تن کیا اور سینتیسویں منزل کا رخ باندھا۔ لفٹ کھلتے ہی خود کو پول کے کنارے پایا۔ یہاں پر جوان بوڑھے ابنِ آدم بنتِ حوّا سب کا ہجوم تھا۔ کچھ فاصلے پر مشروبات سے لبریز ایک میز تھی جس کے قریب ہلکا ہلکا میوزِک بج رہا تھا اور کچھ حضرات مصفروفِ رقص بھی تھے۔ ہمیں ان دائیں بائیں کی مصروفیات سے کیا غرض، "ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر" گنگناتے ہوئے پول میں چھلانگ مار دی۔ پول اگرچہ گہرا اور وسیع نہ تھا مگر خوبصورتی میں لاجواب تھا۔ بائیں کنارے قدِّ آدم جتنا ایک آبشار تھا جس کے نیچے کھرے ہونے کے لیے ایک ہجوم تھا۔ سامنے شہر کی بلند و بالا عمارتوں کا خوبصورت منظر تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا مگر آسمان پر اب بھی ہلکا ہلکا نیلاپن ظاہر تھا۔ عمارتوں کی بتّیاں جگنووں کی مانند جگمکا رہی تھیں۔ سطحِ سمندر سے دو سو میٹر بلندی پر تیر رہے تھے۔ نظر کے سامنے بلند و بالا عمارتوں کے دلکش نظارے آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا گویا حاصلِ سفر پا چکے ہیں۔

رات کے نو بجنے کو تھے۔ سفر اور تیراکی سے، تھکاوٹ اور بھوک میں خاصہ اضافہ ہو گیا تھا۔ تیار شیار ہو کر قریبی مول "Sunway Putra" کا رخ کیا جو ہماری ہوٹل سے پیدل ۱۰ منٹ کی دوری پر تھا۔ آٹھ منزلہ مول کی بالائی منزل سے اس کا دورہ شروع کیا۔

ملیشیا، خاص طور پر کوالہ لمپور میں اگرچہ بہت سے شاندار اور خوبصورت مواقع ہیں، مگر یہاں کے مول ایک الگ ہی داستان ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ جس نے سفرِ ملیشیا کا پورا مزہ لوٹنا ہو وہ یہاں کے مول گھومنے کے لیے شیڈول میں الگ سے وقت مقرر کرے۔ مول کی وسعت اور جامعیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ تقریباً مولوں میں دو تین منزلیں تو صرف کار پارکنگ کی ہوتی ہیں۔ سبزی دالوں سے لے کر کافی شاپس، سنیما ہال، گیمنگ سینٹر، عجائب گھر، مچھلی گھر؛ تمام تر سرگرمیاں مولوں میں موجود ہیں۔

پوترا مول کے سروے کی ابتدا آٹھویں منزل پر اس کی مسجد سے کی۔ مسجد کا رستہ اور اس کے باہر لکھا قول دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ وہاں سے آگے بڑھے تو خواتین کے برقعوں کی دکانیں نظر آئیں۔ آگے مزید کپڑوں کی دکانیں تھیں مگر جوں جوں آگے بڑھتے گئے کپڑے مختصر ہوتے گئے۔

بھوک نے مزید سروے گوارا نہ کیا۔ قریبی 'کے ایف سی' گئے، کھانا تناول کیا اور واپسی ہوٹل کی طرف چل دیے۔


دوسرا دن: ستمبر ۱۰
بروز منگل

جس یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہوئے آج وہاں کے دیدار کا ارادہ تھا۔ کل کے سفر کی تھکاوٹ تھی کہ رات میں جلدی سو گئے تھے۔ صبح سویرے اذانِ فجر پر اٹھے، نماز ادا کی اور چھت پر تیراکی کرنے چلے گئے۔ نہا دھو کر تیار ہوئے تو آٹھ بج چکے تھے۔ قریبی بفیٹ ہوٹل پر ناشتہ کیا اور یونیوسٹی کے لیے ٹیکسی منگوائی۔ ہماری ہوٹل سے یونیورسٹی آدھے گھنٹے کی دوری پر تھی۔

کیمپس ہو بہو ویسا تھا جیسا انٹرنیٹ پر دکھایا گیا تھا۔ اپنے ادارے کا حال دیکھ کر ہم دل ہی دل میں یونیورسٹی سے بھی مایوس ہو چکے تھے مگر یہاں آکے معلوم ہوا کہ اصل یونیورسٹی تو ملیشیا کے اعلی ترین انسٹیٹیوٹس میں آتی ہے۔ ہمارے دلوں میں اس کی محبت کم کرنے کا سارا کریڈٹ ہمارے اپنے پاکستانی بھائیوں کو جاتا ہے جو وہاں تعلیم کے نام پر بزنس چمکا رہے ہیں۔ آج یونیورسٹی کی قدر دل میں قدرے بڑھ گئی تھی۔ اساتذہ اور طلباء سے ملاقات کی۔ انہیں بتایا کہ ہم ہی ہیں جو ای میل کے ذریعے اکثر آپ کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ڈگری پر ہمارے نام کے ہجّوں میں ترمیم کروانی تھی جس سے ہمارے اساتذہ دستبردار ہو گئے تھے، تو آج خود یونیوسٹی جا کر وہاں کے ڈائیریکٹر سے ایک ملاقات مقرر کروا لی۔

انہی معاملات میں دوپہر ہو چکی تھی۔ یونیوسٹی کے قریب ہی ایک کیمرا شاپ ہے جہاں سے ہمیں ڈرون کیمرے پر کچھ رقم اڑانی تھی۔ اس کے بعد قریبی 'سب وے' پر کھانا تناول فرما کر "e curve" مول چلے گئے۔ یہ مول سنوے پوترا سے بھی وسیع تھا۔ یہاں پر ہماری پسندیدہ بہت سی سرگرمیاں موجود تھیں۔ مجھے ڈرون اڑانے کا شوق، حنین کو جہاز اڑانے کا، اور طہٰ کو خود جہاز بننے کا۔ اس مول میں کیمرہ شاپس، سکائی سیمولیٹر، ویپ شاپس، سنیما ہال، سکیپ روم وغیرہ سب موجود تھے۔

حنین کو بچپن سے جہاز اڑانے کا بے حد شوق ہے مگر حالات نے ابھی تک یہ موقع فراہم نہیں کیا۔ ملیشیا آنے سے قبل جب اسے علم ہوا کہ یہاں پر "sky simulator" موجود ہے جہاں حقیقی پائلیٹ آپ کو ٹریننگ دیتے ہیں، اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ پلاننگ میں ترمیم کر کے آج کا دن اسی کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ چھ گھنٹے کی ٹریننگ کلاس تھی۔ کچھ دیر ہم بھی جہاز کی کاک پِٹ میں بیٹھے رہے۔ کوالہ لمپور کے ایک ایئرپورٹ سے دوسرے تک کی فلائٹ انجوائے کی۔ پھر تھک کر ہم باہر آ گئے اور مول کی اچھے سے جانچ پڑتال میں لگ گئے۔

کلاس بالآخر رات کے ۹ بجے ختم ہوئی۔ مول کے باہر سنّاٹا چھا چکا تھا۔ شام کے وقت پورا علاقہ رونق افروز تھا مگر اب سڑکوں کی تمام رونقیں منتشر ہو چکی تھیں۔ قریب میں ایک ویران پیزا ہٹ تھا۔ ہمیں وہاں کے اسٹاف نے دبے لفظوں میں بتانا چاہا کہ ان کی بھی بند کرنے کی تیاری ہے مگر ہم نے معصومانہ لہجے میں کہہ دیا کہ ہم مسافر ہیں، یہاں کے اوقات سے ناواقف اور بھوک سے نڈھال ہیں۔ اس کے بعد ہمیں بہت عمدہ سروِس دی گئی۔


گزشتہ روز ہمیں ایک ٹیکسی ڈرایور نے بتایا تھا کہ ملیشیا میں "so car" نامی ایک سروِس ہے جو سیّاحوں کے لیے بہت مفید ہے۔ اس سروس سے آپ فی گھنٹہ گاڑی کرایے پر نکال سکتے ہیں۔ شہر کے متفرق مقامات پر گاڑیاں موجود ہیں جو آپ کے موبائل فون سے کھولی جا سکتی ہیں۔ اکاونٹ کھولنے کے لیے بس ایک عدد انٹرنیشنل ڈرایونگ لائسنس درکار ہے جو خوش قسمتی سے ہمارے ایک ساتھی کے پاس تھا۔ وہیں پیزا ہٹ پر بیٹھے بیٹھے اکاونٹ رجسٹر کیا اور قریبی گاڑیوں کی لسٹ دیکھنے لگ گئے۔ اسی مول کی پارکنگ میں ایک گاڑی موجود تھی۔ جیمس بونڈ کی طرح گاڑی کے پاس گئے، موبائل پر کچھ بٹن دبائے اور گاڑی نے اپنے دامن کشادہ کیے۔

انجان شہر کی ویران سڑکوں پر ایک عجیب ہی اپنائیت سے گھوم رہے تھے۔ کچھ دیر اپنے پھٹے ڈھولوں سے گویّے بننے کی کوشش کی۔ مزہ کچھ کرکڑا ہونے لگا تو گاڑی کے اسپیکروں کا سہارا لے لیا۔ دھیمی دھیمی آواز اور پرکیف سُر میں 'لنکِن پارک' کے 'اِن دھی اینڈ' کے مزے لوٹ رہے تھے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی موجِ نسیم بارش کے موتیوں کو گاڑی کے شیشوں کا زیور بنا رہی تھی۔ جی چاہ رہا تھا انہی سڑکوں پر ساری رات گزار دیں۔

چند گھنٹے مٹرگشتی کے بعد شہر کے ان علاقوں پر سے گزر ہوا جو نائٹ لائف کے حوالے سے مشہور تھے۔ سناٹے رونقوں میں بدل گئے۔ متفرق موسیقیوں کی دبی دبی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ہمارے اندر کا خنّاس ہمیں علاقے کے مزید اندر لے گیا۔ اب خود کو چند مے خانوں کے بیچ جکڑا پایا۔ ذرا سی پی کے بہکنے والے لڑکھڑاتے ہوئے باہر آرہے تھے، اہلِ ظرف نہ جانے کیوں، شاید ان کے رخصت ہونے پر، اندر رقص کناں تھے۔ ساقیان مزے لے لے کر جام چھلکا رہے تھے۔ کچھ چشم بہ گریا کونے میں بیٹھے اپنے حالاتِ زندگی کو کوس رہے تھے۔ عیّاشی کے سامان اس قدر آسان جان کر ہم پاک دامان نوجوان کچھ حیران پریشان سے ہوئے۔ جہادِ اکبر کرتے ہوئے فوراً گاڑی گمائی اور دوبارہ ان ویران سڑکوں کو رونق بخشنے نکل گئے۔ کچھ دیر مزید گھوم پھر کر ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔

کنووکیشن کی تقریب کے لیے بدھ کا دن مخصص کیا گیا تھا۔ کنووکیشن یونیورسٹی کیمپس میں نہیں بلکہ ایک مشہور ہوٹل "ماریوت اینترنشنال" میں رکھی گئی تھی۔ ہماری ہوٹل سے ماریوٹ جانے کا ذریعہ ایک معمولی سی ٹیکسی تھا مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم اکیلے سفر کرنے کے گمان میں تھے۔ رات کا بقایا حصہ اگلے روز کی پلاننگ میں ترمیم کرتے کرتے گزار دیا۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ ایک گاڑی پھر سے کرایے پر نکال لیتے ہیں تو بھرم پڑے گا۔ پھر سوچا کہ لیموزین کا بھرم ایک اپنا ہے، لہٰذا لیموزین کمپنی کو کال کر کے معلومات حاصل کیں۔ اُن کے ریٹ کچھ سمجھ میں نہ آئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس سے سستے آپشن کا انتخاب کر لیں مگر کسی نے تجویز دی کہ کیوں نہ ہیلی کاپٹر کا کرایہ بھی پتہ کر لیا جائے۔ وقت کی فراوانی تھی کہ ہم واقعی ہیلی کاپٹر کے ریٹ پتہ کرنے لگ گئے۔ مگر پھر جیب کا خیال آیا اور یہ بھی سوچا کہ بے چارہ وزیرِ اعظم جب گاڑی پر آ رہا ہے تو اس کی دل شکنی نہ ہو جائے۔ بالآخر ٹیکسی کا ہی انتخاب طے پایا مگر ذرا اونچے درجے کی۔



تیسرا دن: ستمبر ۱۱
بروز بدھ

آج کا دن خاصی اہمیت رکھتا تھا۔ اس سفر کا مقصدِ اصلی آج کے دن ہی تکمیل پانے کو تھا۔ دوپہر دو سے شام چھ تک یونیورسٹی کی کنووکیشن تھی، پھر گالا ڈنر۔ اور اس محفل کے مہمانِ خصوصی وزیرِ اعظم مہاتیر محمد تھے۔

صبح ۱۱ بجے اٹھے۔ تاشتہ کرنے کے بعد جب کپڑے استری کرنے کا وقت آیا تو گھر کی بڑی یاد آئی۔ تیار ہوتے ہوتے دوپہر کا ۱ بج چکا تھا۔ حنین صاحب بہت پرجوش تھے، انہوں نے جذبات میں آ کر مہنگی والی ٹیکسی بھی آرڈر کر دی تھی جبکہ ہماری تیاریاں ابھی زیرِ اہتمام تھیں۔ جب تک تیار ہو کر نیچے اترے، ٹیکسی ڈرائیور اکتا کر جا چکا تھا۔ اب دوسری ٹیکسی کی تلاش میں لگ گئے۔

چار سوٹد بوٹد بظاہر بزنس مین حضرات، دوپہر کی تپتی دھوپ میں، سڑک کے کنارے ٹیکسی کا انتظار کر رہے تھے۔ دل ہی دل میں یہ سوچ بھی گزری کہ اگر ہیلی کاپٹر ہوتا تو اس کے پنکھے سے پسینہ ہی سکھا لیتے۔ اب اچھی ٹیکسی یا سستی ٹیکسی والی شرط ہٹا چکے تھے۔ کسی بھی قسم کی گاڑی ہمیں قبول تھی۔

آدھے گھنٹے کا رستہ طے کر کے دوپہر ۲ بجے ہم ہوٹل پہنچے۔ ہمارا اس شان سے استقبال کیا گیا گویا ہم مہمانِ خصوصی ہوں۔ سرخ قالین پر سے گزرتے ہوئے استقبالیہ پہنچے جہاں پھولوں کے گلدستوں نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں تقریب گاہ کی طرف روانہ کیا۔ وہاں ہمیں ایک کتابچہ تھمایا گیا جس پر تقریب كے فارمیٹ کی ترتیب وار فہرست دی گئی تھی۔ گریجویٹ ہونے والے تمام حضرات کے نام بھی درج تھے۔ اپنا نام وہاں دیکھ کر خوشی کے آنسو بہنے کو تھے۔ والدین کی دعائیں یاد آرہی تھیں۔ اساتذہ کی کاوشیں ذہن سے گزر رہی تھیں۔ آج ہم ایک 'سرٹیفائید' پڑھے لکھے بننے جا رہے تھے۔

اس کے بعد گریجویشن کا مخصوص کالا روب اور ٹوپی دی گئی جو اچھالنے ہم چار ہزار میل دور سے آئے تھے۔ ایک لائبریری نما دیوار کے سامنے تصاویر کھنچوائیں اور مین ہال کی طرف چل دیے۔ ہال میں حسبِ تخصص کرسیاں معیّن تھیں۔ دوستوں کو الوداع کہہ کر اپنی فِیلڈ کے لوگوں میں جا بیٹھے۔ سب ایک دوسرے سے اِس فیلڈ کے انتخاب کرنے کی وجہ پوچھ رہے تھے۔ کوئی اپنے خواب پورے کرنے آیا تھا، کوئی اپنے والدین کے۔ کچھ تو محبوبہ کو امپریس کرنے کی خاطر آئے تھے۔ اسی گفتگو کے دوران تقریب کا آغاز ہوا۔ قومی ترانے کے ادب میں سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر چند پروفیسر حضرات نے تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ کچھ اس یونیوسٹی سے تعلیم یافتہ کامیاب حضرات کا تذکرہ ہوا۔ کچھ ہمارے مستقبل کی روشنی پر بات ہوئی۔ انہیں معاملات میں تقریباً چار بج چکے تھے۔ پھر یکے بعد دیگرے تمام طلباء و طالبات کو اسٹیج پر مدعو کر کے فارغ التحصیل کیا گیا۔ آخر میں ٹوپی اچھالنے کے لیے سب کو ایک ساتھ بلایا گیا۔

تقریب کا ابتدائی آدھا حصہ مکمل ہو چکا تھا۔ متعدد تصویر کشی سے فراغت پا کر روب اور ٹوپی واپس کر کے استقبالیہ پہنچے۔ مشروبات کے ذریعے تھکن کو اتارا اور آگے کی تقریب کی تیاری پکڑی۔ کچھ دیر کی بریک کے بعد گالا ڈنر بمع وزیرِ اعظم کا انعقاد تھا۔


مدینہ منورہ سے وزیرِ اعظم کے لیے ہم کھجوریں اور عطر کے تحائف کا اہتمام کر کے گئے تھے۔ ہوٹل عملے سے گزارش کی کہ ہم اپنے ہاتھوں سے انہیں دینا چاہتے ہیں۔ عملے نے مینیجر کی طرف بھیج دیا۔ مینیجر نے پہلے تو صاف انکار کر دیا۔ ہم نے کہا چلیں آپ ہی دے دیجئے گا، تو کہنے لگا کہ دراصل "bomd squad" احتیاطی تدابیر پوری کر کے جا چکا ہے اب کسی قسم کے ھدایا کا جواز نہیں۔ بہت تاخیر ہو گئی ہے آپ کو دن کی ابتداء میں رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ ہم مایوس ہو کر تحائف وہیں چھوڑ کر تقریب گاہ روانہ ہوگئے۔

یہاں پھر حسبِ تخصص کرسیاں مخصص تھیں۔ ایک بار پھر دوستوں کو الوداع کہا اور کرسی نشین ہوگئے۔ حسبِ سابق ترانے سے تقریب کا آغاز ہوا۔ پھر چند دوشیزائیں رقص کرتی ہوئی جلوہ افروز ہوئیں۔ پھر ملیشیا کی معروف وائلنسٹ 'Joanne Yeoh' تشریف لائیں اور نہایت خوبصورت انداز میں وائلن بجا کر سب کو محظوظ کیا۔ پھر وزیرِ اعظم صاحب نے طالبِ علم کی زندگی پر کچھ بول بولے۔ بتایا کہ ہماری زندگی ایک موڑ پر ہے، جس کے آگے کا رستہ خطرناک اور بل کھاتا ہے۔ فی الحال ہم اپنی زندگی کے خوبصورت ترین حصے میں ہیں جو اب اپنے اختتام پر ہے۔ اس تلخ حقیقت پر کچھ رونا سا آگیا۔ گزشتہ سالوں کے فلیش بیک نظر کے سامنے سے گزرے۔ کافی سینٹیمینٹل سا محسوس کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک بیرے پر نظر پڑی جو رسوئی سے نکلتا ہوا سیدھا ہماری طرف آ رہا تھا۔

سب سے پہلے "Chinese Tea" نامی ایک ٹھنڈا مشروب پیشِ خدمت ہوا۔ بفضلِ اللہ زندگی میں چائے اور جوس بہت پیے ہیں، جبھی دھرلّلے سے کہہ سکتے ہیں کہ اس مشروب کا ذائقہ نہ چائے جیسا تھا نہ جوس جیسا۔ یوں لگ رہا تھا پانی میں ہلکی سی چینی اور اس سے دگنا نمک ڈال کر پیش کیا گیا ہو۔ رنگ کے لیے شاید کسی جڑی بوٹی پر سے اس پانی کو گزارا ہو۔ ہم متمنّی ہوئے کہ کھانا اتنا لذیذ ہونا چاہیے کہ اگلا کھونٹ پینے کی نوبت نہ آئے۔ بیرا دوبارا نمودار ہوا۔ اس بار جگ کی جگہ ایک پلیٹ لایا تھا جس میں سجاوٹ سے سُوشی رکھی ہوئی تھی۔ ٹیبل پر موجود تمام حاضرین نے گہرا سانس بھڑا اور اگلی ڈِش کے انتظار میں لگ گئے۔ کچھ حضرات سُوشی کی تصاویر لے رہے تھے۔ کچھ ناک پر رومال رکھ کر بیٹھ گئے، کچھ تو امید ہار کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ بیرا ایک بار پھر آیا اور جھینگے کی پلیٹ ہمارے سامنے رکھ دی۔ جھینگے ہمیں ویسے تو پسند نہیں البتہ موجودہ اشیاء میں سب سے زیادہ نظر کو بھا رہے تھے۔ ہمارے سامنے بیٹھے شخص نے ایک نوالا بھرا اور دردناک سی صورت بناتے ہوئے پانی مانگا۔ ہم نے اُدھر ہی اپنا ہاتھ روک لیا اور ارادہ کر لیا کہ گھر جا کر ہی کچھ کھائیں گے، یہاں امیروں کے کھانے مجھ غریب کو ہاضمے میں تکلیف نہ دے دیں۔

بعد از تقریب وزیرِ اعظم سے مصافحہ کے لیے ہمیں سرخ قالین کے ارد گرد قطار میں کھڑا کیا گیا۔ ہم نے سوچا کیوں نہ اُن تحائف کو اِن کے حوالے کرنے کی کوشش کر ہی لی جائے۔ فوراً بھاگ کر تحائف اٹھائے اور قطار میں کھڑے ہو گئے۔ وزیرِ اعظم کے ارد گرد سیکورٹی عملہ تھا جو مصافحہ کی حد سے بڑھ کر کسی کو بھی قریب نہیں آنے دے رہا تھا۔ مگر ہم نے اپنا نصیب آزمانا چاہا۔ حنین نے ہمّت کی اور آگے بڑھ کر وزیرِ اعظم سے کہہ ڈالا کہ ہم مدینہ پاک سے آپ کے لیے کھجوریں لائے ہیں۔ حنین کی کرامت کہیے یا وزیرِ اعظم کی، کہ اُنہوں نے سن بھی لیا اور جواباً 'شکریہ' بھی کہا۔ پھر حنین نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے ذکر کیا کہ ہم مدینہ منورہ کے طلباء ہیں۔ وزیرِ اعظم کی ہماری طرف توجہ دیکھ کر حفاظتی عملہ سمجھا کہ یہ کوئی اونچی پہنچ والے حضرات ہیں، ہاتھوں سے جو باڑ بنا رکھی تھی اسے کھولا، ہمیں دائرے کے اندر لیا اور باڑ دوبارہ بنا لی۔ وزیرِ اعظم رُکے، تحائف بذات خود وصول کیے، اپنے عملے میں سے ایک کو تھمائے اور شکریہ ادا کیا۔ چند لمحے ہم ہکّے بکّے رہ گئے۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھ ناچیز کو اتنی توقیر دی گئی۔ پھر خیال آیا کہ طیبہ کے ھدایا ہیں، طیبہ والے کی مرضی ہے، ہم تو محض قاصد ہیں جو حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔

گھر پہنچتے پہنچتے ۱۲ بج چکے تھے۔ بھوک سے حالت خراب تھی۔ ماک ڈونالڈز آردر کیا، کچھ دیر گپ شپ کی اور سو گئے۔



چوتھا دن: ستمبر ۱۲
بروز جمعرات

آج کا دن بھی خاصی اہمیت رکھتا تھا۔ آج ہمیں یہاں کی تمام مشہور سیّاحی مقامات دیکھنے جانا تھا۔ دن کا ہر لمحہ قیمتی تھا۔ وقت کی ذرا سی بھی بے ترتیبی نقصاندہ ثابت ہو سکتی تھی۔ حسبِ توقع طہٰ کے علاوہ باقی تمام حضرات صبح سویرے آٹھ بجے اٹھ چکے تھے۔ زور زبردستی سے اسے بھی اٹھایا اور ہوٹل کا کونٹینینٹل ناشتہ نوش فرمانے کے بعد شہر گھومنے نکل پڑے۔



شیڈول کے مطابق ابتداء محنت طلب مقام 'ایکو فورسٹ پارک' سے کی۔ پارک پہنچنے سے پہلے طہ کے علم میں نہیں تھا کہ یہ ایک 'ہائیکِنگ' کی جگہ ہے۔ یا شاید وہ اسے 'بائیکِنگ' پڑھ گئے ہوں گے۔ معلوم پرنے پر سب سے پہلے انہوں نے ہمیں اس جگہ کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ نام میں 'فورسٹ' آتا ہے لہٰذا ہمیں بتایا گیا کہ یہاں کے شیر اور چیتے انسان کو کچّا چبا جاتے ہیں۔ پھر اونچائی سے گرنے کے خدشات پر بھی نظر ڈالی گئی۔ آخری حربہ یہ تھا کہ اگر صبح صبح ہی چل لیا تو باقی دن تھکاوٹ اتارنے میں گزر جائے گا لہذا ٹیکسی والی جگہیں پہلے دیکھ لیں۔ ہم مگر دو مہینوں سے اس دن کی تیاری کر رہے تھے، ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ لگ بھگ بیس منٹ پیدل چلنے کے بعد اب ہم تقریباً باغ گھوم چکے تھے۔ مزید آگے جانے کا رستہ تعمیراتی مراحِل سے گزر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر طہ کی جان میں جان آئی۔

یہاں ایک مشہور و معروف پُل ہے جو 'کنوپی واک' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ زمین سے لگ بھگ دو سو میٹر بلندی پر ہے۔ لکڑی کا بنا ہوا اور اس کے دونوں طرف جالیاں ہیں۔ آپکی خوشی میں شریک ہو کر یہ بھی آپ کے ساتھ جھومتا ہے۔ دِکھنے میں نازک سا لگتا ہے اور اسکی نزاکت ہی اسکی ہیبت میں اضافہ کرتی ہے۔ اسکو پارک کا دل کہیں تو غلو نہ ہوگا۔ یہاں پر کھڑے ہو کر درختوں کے درمیان ایک آڑ سے کوالہ لمپور شہر کا ساری تھکن اتار دینے والا خوبصورت نظارہ ہی ہمارا یہاں آنے کا مقصد تھا۔ مگر اس پل کو بھی بند دیکھ کر ہم کافی مایوس ہوئے۔ شاید اسی سبب سیاحوں کا ہجوم معمول سے کم تھا۔ جذبات حاوی تھے، سوچا رسّی پھلانگ کر پُل پر چڑھ ہی جاتے ہیں۔ پاس پہنچے تو ہوش تھوڑے ٹھکانے لگے، دل میں خیال آیا کہ تعمیراتی سلسلے میں کہیں پل بیچ سے ٹوٹا ہوا نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پل کے ہمراہ جھومتے جھومتے ایک گہرا رقصِ بسمل کریں اور زمیں بوس ہو جائیں۔ احباب سے رائے طلب کی، طے پایا کہ اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت کسی اور موقع پر دیں گے۔

گزشتہ روز ہم نے 'ڈرون کیمرے' میں کچھ رقم اُڑائی تھی۔ آج اس کی پرواز کی پہلی مہم تھی۔ ڈرون کیمرے پر ہم گزشتہ ایک سال سے تحقیق کر رہے تھے۔ اب تک تو اس کے پر پر سے واقفیت ہو چکی تھی۔ ہاں حقیقتاً یہ پہلی پرواز تھی۔ پل کے درمیان جہاں جانے کی تمنا رہ گئی تھی، سوچا ہم نہیں تو ہمارے کیمرے کی آنکھ ہی اس نظارے کو دیکھ لے۔

پارک سے فارغ ہو کر 'منارہ ٹاور' کی جانب چل پڑے جو چند ہی قدم کی دوری پر تھا۔ صبح کے ۱۱ بج چکے تھے۔ بھر پور نیند کے باوجود دھوپ اور ورزش نے ابھی سے تھکا دیا تھا اور آگے کا سفر بہت طویل تھا۔ وقت کی پابندی واجب تھی ورنہ کسی نہ کسی مقام کو دیکھے بغیر خیرباد کہنے کا خدشہ تھا۔ چار سو اکّیس میٹر بلند یہ ٹاور دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں ساتویں نمبر پر آتا ہے۔ سیاحوں کی معراج البتہ ۳۳۵ میٹر تک ہے جہاں سے ٹاور کے ارد گرد چکر لگا کر پورے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، ایک شیشے کا بنا ہوا کمرہ ہے جو "sky box" کے نام سے مشہور ہے۔ ٹاور کے پاس پہنچ کر ٹکٹ خریدے اور لفٹ کی قطار میں کھڑے ہوگئے۔ لفٹ خاصی وسیع تھی. کہا جاتا ہے کہ یہ ۱ منٹ میں ۳۵۰ میٹر کا سفر طے کرتی ہے۔ چند ہی لمحوں میں ہم ٹاور کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکے تھے۔ نظارہ توقع سے بڑھ کر تسلی بخش پایا۔ ٹھنڈی ہوائیں تھکن اتار رہی تھیں۔ رونقیں جذبات ابھار رہی تھیں۔ پرکیف نظارہ رقت طاری کر رہا تھا۔ اس بلندی سے کوالہ لمپور کے مشہور و معروف "Petronas Twin Towers" کا نظارہ بہت خوبصورت تھا۔

ان تمام مناظر کو آنکھوں میں سمو لینے کے بعد ہم "sky box" کی طرف چل دیے۔ اونچی اونچی عمارتیں زیرِ قدم دیکھ کر پہلے کچھ سہم سے گئے، پھر احساس ہوا کہ ابھی ہم اتنے بھی وزنی نہیں ہوئے کہ یہ ہمارا بوجھ نہ اٹھا سکے۔ نظارہ اتنا دلکش تھا کہ ۱۰ منٹ کا مقرر وقت پورا ہو جانے کے باوجود دل نہیں بھرا۔ درخواست کر کے کچھ منٹ اور مانگ لیے۔

واپسی کا رستہ ایک گفٹ شاپ پر سے گزرتا تھا۔ ملیشیا کی مشہور و معروف اشیاء سے متصل طرح طرح کے تحائف وہاں موجود تھے۔ ہم نے بھی ایک اچھے دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے احبّاء کے لیے چند تحائف خریدے۔ دوپہر کے ۲ بج چکے تھے۔ واپسی ہوٹل جا کر کچھ کھنٹے سستانے کے بعد ایکویریم جانے کا ارادہ تھا۔ اکویریم "G Towers" ہوٹل کے نزدیک تھا چنانچہ اسی کو اپنی منزل بنا کر ٹیکسی منگوائی۔ "G Towers" ملیشیا کی ایک معروف 5 سٹار ہوٹل ہے جو شہر کے مرکزی حصے میں واقع ہے۔ یہاں سے ٹوِن ٹاورز کا پیدل رستہ دس منٹ کا ہے۔

ٹیکسی والا نہایت خوش طبیعت تھا۔ چند منٹوں کے ہی سفر میں وہ ہمارا دوست بن چکا تھا۔ یوں تو ہماری منصوبہ بندی میں کوالہ لمپور کے تمام اہم مقامات شامل تھے، مگر اس ٹیکسی والے نے ہمیں یہاں کے مقامی لوگوں کی پسندیدہ سرگرمیوں سے بھی واقفیت دی۔ کب ہوٹل پہنچے پتہ بھی نہ چلا۔ ٹیکسی والے سے اس ملاقات کو یادگار بنانے کے لیے اس کے ہمراہ ایک سیلفی لی، سامان کاندھوں پر لادا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔

کچھ سادہ طبیعت ایسے ہوتے ہیں جن کی معاشرے سے توقعات نہایت ہی کم ہوتی ہیں۔ کوئی انہیں مسکرا کر دیکھ لے تو یہ دل ہی دل میں ان کے احسان مند ہو جاتے ہیں۔ ان کی توقعات سب سے یکساں ہوتی ہیں خواہ وہ جہاز کا عملہ ہو یا ہوٹل کا۔ جہاز کو محض وسیلۂ آمد و رفت اور ہوٹل کو چارپائی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر تمام تر اضافی خدمات عیاشی کے ضمرے میں لاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارا شمار بھی انہی سادہ لو لوگوں میں ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ایک ساتھی ذرا مختلف طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو چُھری کانٹے سے پیزا اور سٹرو سے پانی نوش فرماتا ہے۔ جتنے کا ہم کھانا تناول کرتے ہیں اُتنا یہ ٹِپ دے جاتے ہیں۔ ہم نہاتے ہیں، یہ باتھ لیتے ہیں۔ ہمارے اقربا بھائی ہوتے ہیں، ان کے 'برو'۔ ہماری توقعات ویسے ہی صفر ہوتی ہیں، کوئی اگر ہمیں خاطر میں نہ لا رہا ہو تو ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا۔ ہماری اس سادگی پر ۵ سٹار ہوٹلوں کے احوال کھولے گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ آپ ان کے کسٹمر ہو اور 'کسٹمر اِز آلویز رائٹ'۔ آپ کے چند حقوق ہیں جن کو پورا کرنا یہاں کے عملے کا مقصدِ زندگی ہے۔ وگرنہ آپ شکایت کر کے اپنے حقوق جبراً بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ آپکی اجازت کے بغیر کوئی آپ کے کمرے تک میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس قدر خلوت تو ہمارے خوابوں میں بھی نہیں تھی۔

انہی باتوں پر غور و فکر جاری تھی کہ لفٹ منزلِ مقصود پہنچی۔ ہم تھکن اتارنے کو بیتاب تھے سو فوراً اپنے کمرے کی طرف لپکے۔ ہمیں دیکھ کر وہاں کے عملے کا ایک فرد برق رفتاری سے ہماری طرف آیا۔ کہنے لگا:
"سر۔ آپ نے جو کل ٹی وی کی کمپلینٹ کی تھی، ہم نے آپ کے کمرے کا ٹی وی ٹھیک کروا دیا ہے"

ہم سادہ طبیعت اس کی چستی پر قربان ہوئے جا رہے تھے۔ دل نے کہا شکریہ کہہ دیتے ہیں، دماغ ورغلا رہا تھا کہ یہ تو اس کا کام ہے اس پر شکریہ کیسا۔ لب اسی کشمکش میں تھے۔ دل غالب آیا اور لب زیرِ جنبش ہوئے۔ اتنے میں دوست کے چہرے پر نظر پڑی جو ٹماٹر کی سی صورت اختیار کر چکا تھا۔

"آپ ہمارے کمرے میں بغیر اجازت گئے تھے؟"

"جی سر"

"مگر ہم نے تو "ڈو ناٹ ڈِسٹرب" کا پرچہ لٹکایا ہوا تھا"

"وہ دراصل۔۔۔" اتنے میں وہاں کی فلور مینیجمنٹ آپہنچی۔ مینیجر بظاہر انتہائی پروفیشنل نظر آرہی تھی۔ انتہائی عاجزی سے اپنی صفائی پیش کرنے لگی:

"سر ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم آپ کی مرضی کے بغیر آپ کے کمرے میں گئے۔ دراصل آپ کی متعدد کمپلینٹس رات میں آئی تھیں اور آپ کی فرمائش تھی کہ ٹی وی فی الفور ٹھیک کروایا جائے۔ مخصص عملہ رات میں دستیاب نہیں، دن میں آپ نہیں۔ درمیانی رستہ یہی مناسب جانتے ہوئے اقدامات اٹھائے۔ ہم پھر بھی دل آزاری کے لیے معذرت خواہ ہیں"۔

"آپ کی جرات کیسے ہوئی ہمیں اطلاع دیے بغیر۔۔۔" ہمیں گمان ہوا کہ تنقید برائے تفریح کی جا رہی ہے۔ تھوڑی کھنچائی کر کے مسکرا دیں گے اور بات رفع دفع ہو جائے گی۔ مگر کچھ دیر بعد محسوس ہوا کہ ہمارے دوست کے احساس مجروح ہوئے ہیں۔ معاملہ اب آگے کو بڑھتا دکھائی دے رہا تھا۔ بالآخر ہوٹل عملے سے یہ کہا گیا کہ اب آپ ہماری خدمت بجا لانے کے لائق نہیں۔ ہمارے کمرے پر سامان اٹھانے والے اسٹاف کو بھیجا جائے۔ ہم یہاں سے جا رہے ہیں۔

"سر ہم آپ کو قائل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟" محترمہ نے نہایت معصومانہ انداز میں دریافت کیا۔ ہمیں تو ان کا چہرا دیکھ کر رونا سا آگیا۔ ہمارے دوست کی شکل بتا رہی تھی کہ ان کے ذہن میں بہت سے نازیبہ جوابات آئے ہونگے مگر بڑوں کی تربیت نے گوارا نہیں کیا۔ چپ ساندھ لی اور سامان پیک کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ہم غریب الفکر ابھی تک اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ سامان پیک ہو چکا تھا۔ میں اور طہٰ بمع سامان نیچے اتر گئے، باقی حضرات کا مزید مینیجمینٹ سے لڑنے کا ارادہ تھا۔ ادا کردہ رقم سے متبقی کا ریفنڈ کروانا تھا۔ کمپلینٹ درج کروانی تھی اور اپنی صفائی اوپر کے ادارے تک پہنچانی تھی۔ طہٰ کو تو یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں اس کمپلینٹ سے بے چاری مینیجر کی ملازمت خطرے میں نہ پڑ جائے۔

تمام مراحل سے فارغ ہوتے ہی ٹیکسی کروائی اور اپنی دوسری ہوٹل چل دیے۔ خاموشی جان لیوا محسوس ہو رہی تھی۔ ہاتھوں میں تحائف تھے مگر رویت سوگ زدگان والی تھی۔ بچپن میں گھر چھوڑ کر چلے جانے کے کئی منصوبے بنائے تھے مگر آج پہلی بار پایہ تکمیل تک پہنچتا دیکھ رہے تھے۔ تذبذب کا شکار تھے کہ اس کامیابی پر خوش ہوں یا عملے پر رعب جھاڑے جانے پر ندامت کریں۔ دل نے جلتے پر گھاسلیٹ چھڑکنے کو کہا۔ فلور مینیجر کی سی آواز نکالتے ہوئے اس کے جملے دہرائے

"Sir what can I do to make you stay?"

ہنسی اور قہقہے سے ماحول کِھل اٹھا۔ کہنے کو سب کے پاس بہت کچھ تھا مگر خوفزدہ تھے ہماری جرات کو سلامی پیش کرتے ہوئے سخن پیرا ہوئے۔ سب نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا کسی نے اس پورے معاملے کو تنقیدانہ نظریے سے بیان کیا کسی نے خراجِ تحسین پیش کیا۔ مینیجر کے رخصار کا تل بھی زیرِ گفتگو آیا۔

ہوٹل پہنچ چکے تھے۔ سامان رکھا اور آرام کرنے بستر پر لیٹے۔ موقع مناسب جانتے ہوئے ہوٹلوں کے اصولوں سے واقف حضرات نے مجھ سادہ لو کو چند اصولوں سے آگاہ کیا۔ اب تک ہم اپنے دوست کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ مگر اب معلوم پڑا کہ ہوٹل کے عملے بلکہ مینیجر تک کو کسی کے کمرے میں بے اجازت داخل ہونا منع ہے۔ اگر کوئی شخص لاپتہ ہو اور کیمرے پر نہ دکھائی دے، تب بھی اس کے کمرے میں ۴۸ گھنٹوں تک داخل نہیں ہوا جا سکتا۔ اور اس کے بعد بھی مینیجر کی موجودگی میں ہی داخل ہوا جا سکتا ہے۔ یہ تمام اصول و ضوابط 'پرایویسی' کے تحت آتے ہیں جس سے ہمارا دور دور تک لینا دینا نہیں تھا۔ ان حقائق کو جاننے کے بعد اب ہم دوسری نظر سے تمام معاملے کو دیکھنے لگے۔ احساس ہوا کہ اگرچہ ہمارا ردِّ عمل ضرورت سے زیادہ محسوس ہو رہا تھا، ایک ۵ سٹار ہوٹل کے لیے ان اصولوں پر عمل پیرا ہونا لازمی تھا۔ اور اس غلطی پر ندامت کی بجائے وہ یہ صفائی پیش کر رہے تھے کہ ہم نے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کال نہیں لگ رہی تھی۔

آرام کے لیے چند ہی گھنٹے مقرر کیے تھے جن کا زیادہ تر حصہ ان امور میں صرف ہو چکا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ اکویریم کا دورہ ترک کر دیتے ہیں، اپنے دیس واپس لوٹ کر مچھّی مارکٹ کا ٹوور کر لیں گے۔ مگر اکویریم شہر کے مرکزی علاقے میں آتا ہے۔ آس پاس کی جگہیں دیکھنی ہی تھیں تو آرام کے وقت کو مختصر بنانا ہی مناسب لگا۔

شام کے چھ بج رہے تھے۔ جمعرات کا دن تھا۔ ملازمت والے حضرات دفاتر سے واپسی لوٹ رہے تھے۔ بے کار حضرات فرصت کا زمانہ سڑکوں پر گزارنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ ٹریفک عروج پر تھا مگر سہانا موسم ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے روک رہا تھا۔ اکویریم تک کی ٹیکسی کروائی مگر ٹریفک کی وجہ سے کچھ فاصلے پر ہی اتر گئے اور پیدل روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر قریبی مسجد میں نمازِ مغرب ادا کی اور مچھلی گھر میں داخل ہوئے۔

گھر کیا اسے تو محل کہا جائے تو بھی حق ادا نہ ہوگا۔ وسیع اتنا کہ ڈیڑھ گھنٹے تک ہم چلتے ہی رہے۔ کبھی رستہ نیچے کو جا رہا ہے، کبھی اوپر کو۔ کبھی ہم چل رہے ہیں، کبھی رستہ۔ ہم تو کُل ملا کے چار مچھلیوں کے نام جانتے تھے جن میں سے دو فرائی میں اچھی لگتی ہیں، دو سالن میں۔ مگر یہاں سینکڑوں مچھلیوں کی اقسام بمع بایو ڈیٹا موجود تھیں۔ کچھ رنگ برنگی ننھی ننھی پیاری پیاری سی چھوٹے سے تالاب کو زینت بخش رہی تھیں، کچھ کانٹے دار ہیبت ناک منہ پھلائے اِدھر اُدھر گھوم پھر رہی تھیں۔ سٹار فِش، سی سنیک، کیکڑے، ڈریگن ایل، ودیگر مختلف سمندری مخلوق سے دعا سلام ہوئی۔

ڈیڑھ گھنٹہ کیسے گزر گیا پتہ ہی نہ چلا۔ اکویریم سے متصل ہی "KLCC Park" ہے جو خاصہ وسیع اور کافی خوبصورت ہے۔ اس کے شمالی حصے میں ایک "سمفنی جھیل" ہے جہاں ہر آدھے گھنٹے کے فاصلے سے "واٹر شوو" ہوتا ہے۔ مختلف میوزک کی دھن پر پانی کا رقص دیکھنے کے لیے عوام کا ایک سمندر کھڑا تھا۔ ہم بھی ادھر بیٹھ گئے اور جھیل کی تصویر کشی کرنے لگے۔ 

میوزک شروع ہوا اور جھیل لال پیلی اور نیلی بتّیوں سے جگمگا اٹھی۔ جھیل کے بیچ مختلف فوّارے ابھرتے دکھائی دیے۔ جوں جوں میوزک زور پکڑتا گیا فوارے اونچے ہوتے چلے گئے۔ یہ پرکیف مناظر غم و الم پر پانی پھیرتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ ان نظاروں کے مزے لوٹتے ہوئے کچھ دیر پارک میں ٹہلتے رہے، پھر "Suria KLCC" شوپنگ سنٹر کی جانب رخ کیا۔

حسبِ توقع مول کو کافی لمبا چوڑا پایا۔ یہ مول ٹُوِن ٹاورز کو گھیرے ہوئے ہے جس کے سبب اسے کوالہ لمپور کا اہم ترین مول مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سن ۱۹۹۸ سے ۲۰۰۴ تک یہ دنیا کی بلند ترین عمارت کا رتبہ رکھے ہوئے تھا۔ فیشن کی کچھ سرگرمیاں چل رہی تھیں سو کچھ وقت وہاں صرف کیا۔ کچھ گِفٹ شاپ سے تحائف خریدے۔ کچھ دیر یوں ہی ٹہل کر مول کی جانچ پڑتال کی۔ آخر میں بالائی منزل پر ایک سنیما نظر آیا تو سوچا کیوں نہ کوئی فلم دیکھ لی جائے۔ اتفاق سے پانچ منٹ بعد ہی ہندی فلم "چھچھورے" شروع ہونے والی تھی۔ کاسٹ دلچسپ لگ رہی تھی، وقت کی بھی فراوانی تھی، سارا دن گھوم پھر کر تھکن بھی بہت لگی تھی، سو ٹکٹ کٹا کے سنیما گئے۔ ساڑھے بارہ بجے جب باہر نکلے تو مول کو سنسان پایا۔ باقی تماشائی سیدھا باہر کو نکل گئے مگر ہمیں ذرا سی چُل تھی سو ہم مول کے اندرونی حصّہ گھومنے نکل گئے۔ کچھ سیکورٹی گارڈ نظر آئے تو رستہ بدل کر مول کی دوسری جانب نکل گئے۔ اب اتنے بڑے مول میں بس ہم چار حضرات تھے۔ دور دور تک نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات۔ شفاف فرش کی پھسلن دیکھ کر بچپن کا کھیل 'kings' یاد آگیا۔ خالی مول میں بھلا اور کتنا گھومتے، کوئی گارڈ بھی نکالنے نہیں آیا تو خود ہی تھک ہار کر گھر کو چل دیے۔



پانچواں دن: ستمبر ۱۳
بروز جمعہ

آج جمعہ کا مبارک دن تھا۔ اسی مناسبت سے دن کی ابتداء بھی مسجد سے کرنے کا ارادہ تھا۔ گزشتہ رات سوتے سوتے کچھ تاخیر ہوگئی تھی سو آج دیر سے اٹھنے کا ارادہ تھا۔ موسم معمول سے کچھ زیادہ گرم تھا۔ فضائی آلودگی بھی اس سال بہت زیادہ تھی۔ قریبی ملک انڈونیشیا میں ہر سال ان مہینوں میں زرعی زمین صاف کرنے کے لیے کٹی ہوئی فصل کی بقایا ڈنڈیوں کو جلایا جاتا ہے جس کا دھواں ہزاروں میل دور تک پہنچتا ہے۔ گزشتہ روز اسی دھویں کے سبب ہمیں فیس ماسک بھی دیے گئے تھے۔ ہم خوشی خوشی فیس ماسک لگا کر خود کو ڈاکٹر تصور کر رہے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ چند ہی مہینوں بعد پوری دنیا اسے نفرت کے ساتھ دیکھنے لگے گی۔

جمعے کا رش ذہن میں رکھتے ہوئے آج گاڑی کرایے پر نکالنا غیر مناسب لگ رہا تھا۔ ٹیکسی سے بھی رش میں پھنسنے کا امکان تھا لہٰذا ٹرین کو ترجیح دی۔ ہماری ہوٹل سے دو منٹ کی دوری پر ٹرین اسٹیشن تھا۔ اسٹیشن پہنچے، ٹکٹ خریدے اور قطار میں کھڑے ہو گئے۔ ٹرین چند ہی منٹ میں پہنچ گئی۔ جمعہ کی نماز کا وقت تقریباً دو بجے کا تھا اور ابھی پونے دو بج چکے تھے۔ اندازہ لگایا کہ دس منٹ میں اگلے اسٹیشن تک پہنچ جائیں گے اور وہاں سے مسجد پانچ منٹ کا رستہ ہے۔ کٹوکٹ پہنچنے کے آثار نظر آرہے تھے۔ خدشہ تھا کہ ایک گلی بھی غلط مڑ گئے تو نماز نکل جائے گی۔ اور کچھ ایسا ہی ہوا۔

منزلِ مقصود پہنچ کر مسجد کے میناروں کے لیے نظر گھمانا چاہی. گوگل میپ نے یہ بتانا شاید غیر ضروری سمجھا کہ اسٹیشن انڈر گراونڈ ہے۔ جماعت تو اب یوں سمجھو نکل چکی تھی۔ بھیڑ چال میں لوگوں کے پیچھے پیچھے چلتے گئے یہاں تک کہ ایک رستہ اوپر کو جاتا دکھائی دیا جہاں سے سورج کی روشنی نمودار تھی۔ باہر نکلے تو کچھ چونک سے گئے۔ اسٹیشن ایک بوسیدہ عمر رسیدہ سی عمارت کے پہلو میں تھا۔ موٹر سائکلوں کا ہجوم، گاڑیوں کے ہورن کی آوازیں، تپتی دھوپ، فضا آلودہ؛ یوں لگ رہا تھا زمین کے بیچ و بیچ سفر کر کے کراچی کے لیاری سے نکلے ہیں۔

مسجد کے منارے دور سے نظر آرہے تھے۔ انہیں پر نظر جمائے چلتے رہے اور چند ہی منٹوں میں خود کو دہلیز پر پایا۔ سنّاٹا بتا رہا تھا جماعت دو نہیں شاید ڈیڑھ بجے تھی۔ مسجد بہت ہی خوبصورت تھی۔ یہ درختوں پھول پودوں کے بیچ تھی۔ صحن میں چھوٹے چھوٹے فوّارے اور ان کے سامنے بیٹھنے کے لیے بینچ لگی ہوئی تھیں۔ اس خوبصورتی کا حق تھا کہ اسے خاص وقت نکال کر دیکھا جائے۔ کچھ دیر مسجد کے ارد گرد چکر لگائے، پھر اندر کو چلے۔

فرش اس قدر شففاف، گویا آئینہ بچھا ہوا ہو۔ فواروں کے لیے پوری ایک نہر کا انتظام تھا۔ گرمی کے مارے ہمارا تو اس میں تیرنے کا جی چاہا مگر جگہ کا تقدس کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ مسجد کے دروازے کے قریب بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی پوسٹر رکھے ہوئے تھے جن پر نون مسلم اور نومسلم، بلکہ عام مسلم کے لیے بھی کافی عمدہ قسم کی معلومات تھیں۔ مسجد اندر سے کافی وسیع پائی۔ اس میں بیس سے زائد صفیں تھیں۔ چار میں سے تین جہتوں پر متعدد شیشے کے دروازے تھے جن سے سورج کی روشنی پوری مسجد کو منور کر رہے تھی۔ آخر کی کچھ صفیں خواتین کے لیے معین تھیں۔ ہم نے نمازِ ظہر ادا کی اور باہر کو نکلے۔ دروازے کے قریب ہی مختلف ہدایہ وتحائف کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ ہمارا سب سے پسندیدہ اسٹال ایک ملیشین خطّاط کا تھا، جو آپ کا نسبی شجرہ عربی خطاطی میں فی الفور بنا کر فراہم کرتی تھیں۔ ایسے تحائف فوراً دل میں اتر جاتے ہیں جو خاص کسی کو نظر میں رکھ کر بنوائے گئے ہوں۔ ہم نے اپنے گھر والوں اور دیگر اعزواقرباء کے لیے یہاں سے چند فریمیں بنوائیں۔ تعداد کچھ بڑھ سی گئی تھی جنہیں فی الفور بنانا ذرا سا دشوار تھا، لہٰذا انہوں نے کہا کہ آپ کے تحائف کل تک تیار کر دیے جائیں گے۔

جب سے مدینہ سے نکلے تھے، ہر اگلا روز پچھلے سے مصروف تر گزرتا تھا۔ اس لیے آج کی مصروفیات کچھ ہلکی رکھی تھیں۔ شام کے چھ بج چکے تھے۔ قریب میں ایک سینٹرل مارکیٹ ہے جو سیاحوں میں کافی معروف ہے۔ بس وہاں کی زیارت کرنی تھی اور دوبارہ آرام گاہ کا رخ کرنا تھا۔ ذہن میں خیال آیا کہ گزشتہ روز ایک 'اسکیپ روپ' پر سے گزر ہوا تھا، اس دن وقت نہیں تھا مگر آج فراوانی ہے تو کیوں نہ یہ شوق بھی پورا کر لیا جائے۔ 

اسکیپ روم گزشتہ چند سالوں میں کافی شہرت پا گئے ہیں اور اس کا کریڈت فلموں کو جاتا ہے۔ یہ مختلف موضوعات پر مبنی کمرے ہوتے ہیں۔ چار پانچ افراد کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے، سب کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے اور کمرے میں منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ کمرے کے تھیم کے مطابق متفرق سراغ ہوتے ہیں جن کو کھوجنے پر باہر نکلنے کا رستہ عیاں ہوتا ہے۔ مدینہ میں بھی اس طرح کے کئی روم کھولے گئے ہیں مگر ان کی فیس ذرا سی بھاری محسوس ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیجے کہ تھوڑے سے ہی پیسے مزید ملا کر یہاں بیرونِ ملک آ کر یہ شوق پورا کر رہے ہیں۔

ہمارے سامنے چھ مختلف تھیم رکھے گئے جن میں سے ہم نے "prison break" کا انتخاب کیا۔ ہمیں یوں ہتھکڑیاں لگائی گئیں کہ ایک کا ہاتھ دوسرے سے بندھا ہوا تھا۔ آنکھوں پر پٹی پہنائی گئی۔ ہم نے اپنے موبائل فون ان کے حوالے اور انہوں نے ہمیں حوالات کے حوالے کر دیا۔ اسپیکر سے آواز آئی کہ آپ کے ۴۵ منٹ اب شروع ہوتے ہیں۔

تنبیہ: اگر آپ عنقریب اسی تھیم پر مبنی اسکیپ روم جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ کہانی آپ کا مزہ خراب کر سکتی ہے۔

آنکھیں کھولیں تو خود کو سلاخوں کے پیچھے پایا۔ اِدھر اُدھر نظریں گھمائیں اور کمرے کا جائزہ لیا۔ سلاخوں کے اُس پار سامنے دیوار پر ایک میز رکھی ہوئی تھی۔ ساتھ میں ایک دروازہ تھا۔ سلاخوں سے لگ بھگ پانچ فٹ کی دوری پر حوالات کے دروازے کی چابی لٹکی ہوئی تھی۔ قید خانے کے اندر ہمارے پیچھے ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی تھی۔ بائیں طرف ایک دروازہ تھا جس سے ہم اندر آئے تھے۔ یہ دروازہ اس کھیل کا حصہ نہیں تھا لہٰذا اس پر خاص توجّہ نہیں دی۔ دروازے کے برابر میں ایک خستہ حالت بیسن تھی۔ اوپر دیوار میں ایک الماری لگی ہوئی تھی جس کا دروازہ شیشے کا تھا۔

ہماری دہنی جانب دیوار پر کچھ گرافیٹی بنی ہوئی تھی۔ 'شیرلوک ہولمز' کے مطالعے نے اتنا شاطر دماغ تو کر دیا تھا کہ جو سراغ نظر کے سامنے تھے انہیں یہ سوچ کر نظر انداز کر رہے تھے کہ بھلا اتنا آسان کیوں کر ہوگا۔ اور معاملہ واقعتاً ایسا ہی تھا۔ اس تین فٹ کے کمرے میں متعدد اینٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ بے شمار پلاسٹک کے چوہے تھے۔ دیوار پر کئی سوراخ تھے۔ دل نے کہا تمام مواقع چھانے جائیں، شاید کہیں چابی رکھی ہوگی۔ عقل کچھ منفرد سوچنے پر ابھار رہی تھی۔

سب سے پہلے الماری کا دروازہ کھولا تو اندر سے ایک ڈبّہ برآمد ہوا جس پر اعداد والا تالا لگا ہوا تھا۔ ہماری توجّہ فوراً سامنے بنی گرافیٹی پر گئی جو کچھ غیر معمولی سی لگ رہی تھی۔ اس پر بیچ میں مختلف نمبر لکھے تھے۔ تمام نمبروں کے بے شمار کمبینیشن بنا بنا کر کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ہمت ہار کر کسی دوسرے سراغ کی تلاش میں لگ گئے۔ کچھ دیر تو ہلچل مچی ہوئی تھی، ہر شخص اپنی سوچ پر سب کو گھسیٹ رہا تھا۔ پھر ہم نے اتفاق کیا کہ جب تک ہتھکڑی کا توڑ نہیں مل جاتا، کسی ایک کو اپنا امام بنا لیتے ہیں۔ ایک ایک کر کے سب کے مشوروں پر عمل کیا جائے گا۔ سب سے پہلے یکے بعد دیگرے تمام حضرات نے جالیوں کے بیچ سے ہاتھ نکال کر سامنے لٹکی چابی کو کھینچنا چاہا مگر ناکام رہے۔ اندازہ ہو گیا کہ اس مرحلے سے پہلے بھی کوئی اور منزل طے کرنی ہوگی۔ شاید سب سے پہلے ان کنگھنوں کا بوجھ اتارنا ہوگا۔

عبد السلام اتنی دیر میں آئینے کو تاڑ کر یہ پتہ لگا چکا تھا کہ اس کا ضرور کوئی تعلق سامنے بنی گرافیٹی سے ہے۔ آئینے سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ چند مزید نمپر اُس تصویر میں چھپے ہوئے ہیں۔ ان تمام نمبروں کو بالترتیب نظر کے سامنے رکھا۔ ہمیں تین درکار تھے، نمبر ۹ کے قریب ہوں گے۔ سب اپنا اپنا دماغ لگا کر کوششیں کر رہے تھے۔ حنین کی خلافِ عادت خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ بھی کسی منفرد ترکیب میں مشغول ہے۔ ہم کمرے میں کسی خارجی چیز کی تلاش میں تھے جس سے ہتھکڑیاں کھولیں، حنین نے اس دوران اپنی گھڑی اتار کر اس کی پِن سے اپنی ہتھکڑی کھول لی۔ یہ نظارہ وہاں کے عملے کے لیے بھی غیر متوقع تھا جو کیمرے سے ہم پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر سوچا کہ یہ طریقہ چیٹنگ کے ضمرے میں تو نہیں آتا؟ پھر خیال آیا کہ جیل سے بھاگ رہے ہیں، اتنا تو معاف ہونا چاہیے۔ ایک ایک کر کے اسی طریقے سے تمام ہتھکڑیاں کھول لیں اور یوں ایک بار پھر ریاضی کو حقیقی زندگی میں استعمال ہوتا دیکھنے سے بال بال بچ گئے۔ ہتھکڑیوں کو ہتھکڑیاں پہنائیں اور ایک زنجیر بنا لی۔ چابی کو نشانہ بنا کر زنجیر کو اس جانب اچھالتے رہے مگر چابی کو چھو کر زنجیر واپس آجاتی۔ سب نے کوششیں کر لیں، بالآخر طہٰ کو یہ کام سونپ کر باقی حضرات کمرے کی بقایا چیزوں کو پرکھنے لگ گئے۔

چارپائی تو بس نام کی چارپائی تھی ورنہ اس کے پائے چار تھے، نہ اس کا بستر سونے لائق تھا۔ ایسی چارپائی کو تو دیکھ کر ہی تھکن اُڑ جاتی ہے اور بندہ آرام کو ملتوی کر دیتا ہے۔ 'اسپرنگ' کانٹوں کی مانند نکلے ہوئے اور گدّھا کاغذ سے بھی پتلا تھا۔ زمین پر پلاسٹک کے متعدد چوہے رکھے ہوئے تھے۔ قید خانے کی ہیئت نے قانون کی پاسداری کا جذبہ کچھ بڑھا دیا تھا۔

طہٰ کا مشن کامیاب ہو گیا۔ چابی ہتّھے چڑھ گئی۔ دروازہ کھولا اور سامنے میز کی طرف لپکے۔ میز پر مختلف اخبار پڑے ہوئے تھے۔ قتل و غارت سے لے کر جوائز و انعامات تک کی تمام تر خبریں ان پر درج تھیں۔ دراز میں ایک ڈبہ تھا جس پر تالہ لگا ہوا تھا اور ایک عدد "UV Torch" تھی۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اخبار پر کہیں خفیہ روشنائی سے کچھ لکھا ہوگا۔ سارے اخبار پرَکھ ڈالے مگر ناکام رہے۔ دراز کو ایک بار پھر چھانا مگر اور کچھ نہ ملا۔ تیسری تفتیش پر نظر پڑی کہ دراز کی تہہ میں ایک شفّاف شیٹ رکھی ہوئی ہے جسے ہم دراز کا حصہ سمجھ بیٹھے تھے۔ اس پر کچھ نشان لگے ہوئے ہیں۔ اس کو ایک اخبار پر رکھا تو ان میں سے ایک نشان اخبار میں لکھے ایک نمبر پر آیا۔ نمبر لکھ لیا۔ اگلے اخبار پر شیٹ کو رکھا مگر نشان کسی نمبر پر نہ آیا۔ اس سے اگلے پر رکھا تو دوبارا نمبر نمایاں ہوا، قلمبند کر دیا۔ یوں کرتے کرتے تمام اخبارات کو اسی مرحلے سے گزارا تو ۳ مختلف نمبر حاصل ہوئے۔ مگر ان نمبروں کا کریں کیا!

ڈبے پر تالہ کچھ منفرد تھا۔ اس پر اعداد لمبائی میں لکھے تھے۔ ہم نے اپنے طور پر تمام مذکورہ نمبر ڈالے مگر تالہ نہ کھلا۔ ذہن میں آیا کہ شاید اُلٹے نمبر ڈالنے ہوں۔ یہ بھی آزما لیا مگر تالہ نہ کھلا۔ ٹارچ والا معاملہ بھی ذہن کو کھائے جا رہا تھا۔ اسی سوچ میں گم سامنے کی دیوار کو تاک رہے تھے کہ نظر پڑی دیوار میں ایک حصے کی اینٹ ذرا مختلف لگ رہی ہے۔ ناخنوں سے اینٹ کو کھینچا تو پیچھے ایک خالی کاغذ چھپا ہوا تھا۔ کاغذ پر روشنی ڈالی تو اس پر مزید پہیلیاں لکھی ہوئی پائیں۔ پہیلی تو اب ہو بہو مجھے یاد نہیں، غالباً کسی معین سن میں کسی شخص کی عمر پوچھی گئی تھی۔

ہماری ۴۵ منٹ ختم ہو چکی تھیں مگر ہم آخری مرحلے پر ہی تھے سو ۱۵ منٹ مزید دے دی گئیں۔ اخبارات بہت زیادہ تھے، سب کو پڑھ کر تمام قتلوں کی تاریخوں کو مدِّ نظر رکھنا انتہائی مشکل تھا۔ ذہن میں یہ بات آئی کہ شاید شفاف شیٹ ایک کسوٹی کو طور پر استعمال کرنی ہو۔ جن جن اخبارات سے نمبر نکالے ہیں، شاید نمبر نہیں، ان اخبارات کو منتخب کرنا ہو۔ یہ ترکیب آزماتے ہوئے ان منتخب اخبارات کو پڑھنے لگ گئے۔ ہر فرد ایک اخبار پرَکھ رہا تھا، طہٰ ٹارچ مار کر اس کاغذ پر لکھے سراغ پڑھ رہا تھا۔ اخبارات میں متعدد مقامات پر کچھ قتلوں کا ذکر تھا۔ پھر ایک اخبار میں لکھا تھا کہ قاتل پکڑا گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ ایک اور اخبار پر ذکر تھا کہ بیس سال جیل میں گزارنے کے بعد، فلاں برس کی عمر کا قیدی انتقال کر چکا ہے۔ اس اخبار کی تاریخ سے اس کی عمر منہا کر کے بھی دیکھ لیا مگر تالہ نہ کھلا۔ اب صرف ۵ منٹ بچے تھے۔ ہماری ہو بہو ویسی حالت تھی جیسے ریاضی کے امتحانات کے اخیر میں ہوتی ہے۔ اچانک ذہن میں ایک بات آئی کہ اگر صرف عمر منہا کرنی تھی تو قید میں گزارے گئے سالوں کا ذکر کیوں کر ہے۔ پچھلے اخبار کو اٹھایا جس میں اسے سزا سنائی گئی تھی۔ اس اخبار کی تاریخ میں بیس کا اضافہ کیا تو نتیجے اور انتقال والی خبر والے اخبار میں ایک عدد کا فرق پایا۔ اس نئے نمبر کو تالے پر لگایا۔

تالہ کھل گیا اور اندر سے چابی برآمد ہو گئی۔ چابی دروازے میں ڈالی اور دروازہ کھول کر جشنِ آزادی منانے لگ گئے۔ باہر آ کر عملے سے بات چیت کی۔ انہوں نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ سے موبائل فون کے ساتھ ساتھ گھڑی بھی ضبط کیا کریں گے۔ یوں ہمارے سبب ان کا سسٹم مضبوط تر ہو گیا۔

جیل سے فرار ہونے کے بعد ہم سینٹرل مارکٹ پہنچے۔ یہ مارکٹ سو سے زائد سال پرانی ہے۔ یہاں پر بوتیک، دستکاری, سویوینئر، اور دیگر مقامی سامان فروخت کرنے والے تاجروں کے اسٹالز ہیں۔ معروف مقامی ملیشین ڈیزائن 'باٹِک پرنٹ' میں عورتوں کی چادریں بھی ہیں جو ہم نے اپنے گھر والوں کے لیے خریدیں۔ کچھ دیر اسی مارکٹ میں گھومتے رہے پھر رختِ سفر باندھا۔

طہ کے چچا زاد بھائی عظمی ان دنوں اعلی تعلیم کی غرض سے ملیشیا میں تھے۔ آج ان کی کوالہ لمپور آمد تھی سو ہم نے انہیں ڈِنر پر مدعو کیا۔ ادھر اُدھر کی گپ شپ کرتے کرتے رات کے دو بج گئے۔ سونے کا مگر اب بھی جی نہیں چاہ رہا تھا۔ اچانک کھڑکی پر بارش کی بوندوں نے دستک دی۔ جواب دینا تو ضروری تھا، فوراً "so-car" آرڈر کی اور بارش کا مزہ لوٹنے نکل پڑے۔

کیفیت گزشتہ رات جیسی ہی تھی جب ملیشیا کی پہلی بارش نصیب ہوئی تھی۔ وہی ویران سڑکیں، وہی دھیمی دھیمی موسیقی، وہی احباب کا ساتھ، گویا قدرت نے ہماری تمنّا پر اُس رات کو دوبارہ جینے کا موقع فراہم کر دیا ہو۔ ہاں اس بار ایک ساتھی کا اضافہ تھا جو مقامی ہونے کے سبب ہمیں گائیڈ کر رہا تھا۔ ہمیں شہر کی ان چُھپی خوبصورت سڑکوں کا دیدار بھی میسّر ہو گیا جہاں بغیر کسی گائیڈ کے ہم شاید نہ پہنچ پاتے۔ بادلوں کو نہ جانے کس کا غم کھائے جا رہا تھا، لمحہ بہ لمحہ اشک فشانی میں اضافہ کیے جا رہے تھے۔ ہم بھی شریکِ غم ہو کر تعیّینِ منزل کے بغیر مصروفِ سفر تھے۔ موسم کی لذّت اس قدر تھی کہ ایک وقت آنے پر گوگل میپ کا سہارا بھی چھوڑ دیا اور سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ جہاں وہ لے چلیں ہم چلے۔ اور یوں ایک بار پھر خود کو شہر کے کچھ مشکوک علاقوں میں پایا۔ کچھ دیر سڑک کو الزام دیا، پھر اُن مے خانوں کی کشش کو مجرم ٹھہرایا، بالآخر دونوں کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے گاڑی پارک کی اور مے خانوں کے اندر کا دیدار کرنے چل پڑے۔

کوئی بادہ کش کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے۔ مے خانہ اندر سے ہوبہو ویسا پایا جیسا فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ پورے ہوش میں شاید ہم پانچ لوگ ہی وہاں ہوں گے۔ ہوش میں تو خیر ہم بھی نہ تھے ورنہ ایسی جگہ کیونکر جاتے۔ کونے پر بیٹھا ایک جوڑا توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ایک دوشیزہ گویا بادلوں سے اشک باری کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ ان کے محبوب کچھ سہم کر بیٹھے باتیں سن رہے تھے۔ جذبات کچھ حاوی آنے پر اچانک وہ آگے بڑھیں اور محبوب کو ایک زوردار تھپّر رسید کر دیا جس پر وہ خفا ہو کر باہر نکل گئے۔ اس کے پیچھے پیچھے محترمہ، اور ان کے پیچھے ہم۔ فراغت بہت تھی، تجسّس بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ کچھ دیر ان کے جھگڑے کا بغور جائزہ لینے پر اس نتیجے پر پہنچے کے محبوب دوشیزہ کی بجائے کسی دوسری خاتون کے قدموں میں پہنچ گیا تھا اور اس "love triangle" میں ہم نے قصداً آدھا گھنٹہ توڑ دیا تھا۔ گاڑی میں بیٹھے، کچھ دیر مزید بارش انجوائے کی اور گھر کو روانہ ہوئے۔



چھٹّا دن: ستمبر ۱۴
بروز ہفتہ

کچھ گزشتہ رات سونے میں تاخیر تھی، کچھ نیند کا غلبہ تھا، کہ تیار ہو کر جب سیاحت کو نکلے تو دوپہر کا ایک بج چکا تھا۔ پلان کے مطابق آج نگارا بینک میوزیم جانا تھا۔ طہٰ کو اس میں دلچسپی ذرا کم تھی، وہ رات میں ہی عظمی کی رہائش گاہ چلا گیا تھا۔ دن کے بقایا حصے میں متعدد مقامات جانا تھا لہٰذا آج آدھے دن کے لیے گاڑی نکالنے کا ارادہ تھا۔

گاڑی ہماری ہوٹل کی پارکنگ میں ہی کھری تھی۔ موسم گزشتہ ایام کے مقابلے ذرا ٹھنڈا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ناشتے کے حساب سے تھوڑی تاخیر ہو گئی تھی اور ظہرانے والی بھوک نہیں تھی لہٰذا ہلکے پھلکے اسنیک پر ہی اکتفا کیا۔ شہر کی مختلف سڑکوں پر گھومتے پھرتے بارش کا مزہ لیا اور دوپہر تین بجے بینک پہنچے۔

تین منزلہ میوزیم کے بالائی حصے سے ابتداء کی۔ ایک کونے میں بیڈمنٹن کورٹ بنا ہوا تھا اور ساتھ تماشائیوں کے بیٹھنے کی جگہ بھی تھی، دو تین ٹورنامینٹ وہاں کھیلے۔ آج کی کرنسی سے لے کر سینکڑوں سال پہلے جن ذرائع سے خرید و فروخت کی جاتی تھی، سب کی تاریخ رقم تھی۔ ایک گیلری روم تھا جہاں قد آدم سے بھی اونچے اخبار موجود تھے۔ شہر کوالہ لمپور کے 3d موڈل بھی بنے ہوئے تھے۔ فضائی آلودگی اور اس کو کم کرنے کی ترکیبوں پر بھی کافی معلومات موجود تھی۔ ایک کمرے میں سائکل کو گاڑی پر ترجیح دینے کی بہت عمدہ معلومات تھیں۔ اس اندھیرے کمرے کے بیچ میں ایک سائکل رکھی ہوئی تھی۔ جوں جوں سائکل کا پہیہ گھومتا، سامنے اور ارد گرد لگی اسکرینیں روشن ہوتیں اور یوں لگتا کویا ہم کسی گاوں میں پگڈنڈیوں پر واقعی میں سائکل چلا رہے ہیں۔ اور ہر چند میٹر کا فاصلہ طے کرنے پر کوئی دلچسپ معلومات اسکرین پر لکھی آتی۔ ان مصورفیات میں وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہ چلا۔


شام کے چھ بجنے کو تھے۔ طہ کی نیند اپنے اختتام پر ہی تھی۔ ہوٹل سے ان دونوں کو اٹھا کر "Berjaya Times Square" کی طرف چلے گئے۔ یہ کوالہ لمپور کا ڈاون ٹاون علاقہ ہے۔ یہاں پر ایک مول ہے جو وسیع و عریض ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تعمیراتی شاہکار بھی ہے۔ اس کے نچلے دور میں "Piano Staircase" بنا ہوا ہے۔ ان سیڑھیوں کا ہر درجہ پیانو کی مختلف اسٹرنگز سے متصل ہے جن پر چلنے سے الگ الگ دھن بجتی ہے۔ اور جب متعدد عوام بَیَک وقت اتر چڑھ کر رہی ہوتی ہے تو ایک خوبصورت قسم کا میوزک بج رہا ہوتا ہے۔ نیچے اترتے ہی ایک شیشے کا فرش زیرِ قدم آتا ہے جس کے نیچے مختلف رنگوں میں سیاہی بکھری ہوئی ہے۔ آپ کا قدم جس جگہ پڑتا ہے، وہاں کی سیاہی ہٹ کر آپ کے قدم کے لیے جگہ بناتی ہے۔ اس کے علاوہ مول میں ویپ شاپس اور عطر کی دکانیں بھی کثرت سے ہیں جو پورے فلور پر خوشبو پھیلا رہی ہوتی ہیں۔ بولنگ ارینا، بلیارڈز، اسکیپ روم اور دیگر مختلف سرگرمیاں یہاں موجود پائیں۔ جھولے بھی کثیر تعداد میں تھے۔ ایک ٹرین تو ایسی تھی جو تقریباً تین سے زائد ادوار کا احاطہ کیے ہوئے تھی اور مول کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بل کھاتی لہراتی ہوئی جاتی تھی۔ ہمارا تو دیکھ کے کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ تین گھنٹے گھوم لیا مگر مول پھر بھی پورا ہو کر نہیں دے رہا تھا۔

ہمارے وطنِ اصلی میں اب تک سنیما ہال کی بنیاد نہیں۔ کوئی بھی بڑی فلم آتی ہے تو ہم چھ ماہ بعد ہی اس کو ڈاونلوڈ کر کے گھر کی چار دیواری میں دیکھ سکتے ہیں۔ اب چند روز بیرونِ ملک آئے تھے اور اتفاقاً ان دنوں کافی بڑی بڑی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ رسمِ دنیا، موقع اور دستور سے استفادہ کرتے ہوئے دن بھر کی مصروفیات میں وقت دیکھ دیکھ کر صرف کرتے اور رات میں سنیما ہال جا کر بقایا وقت برباد کرتے۔ آج کی رات انگریزی فلم "Hobbs & Shaw" کے ۱ بجے والے شو کا ٹکٹ لے رکھا تھا۔ یہ سنیما ایک قریبی مول "Mid Valley Mega Mall" میں تھا۔ ۱۰ بجے ہم مول پہنچ چکے تھے۔ "McCafe" کی آئس موکا نے ساری تھکن بھی اتار دی اور تین گھنٹے گزارنے کے لیے ایک جگہ بھی فراہم کر دی۔ ۱ بجے فلم شروع ہوئی اور تقریباً ۴ بجے ہم گھر پہنچ کر سو گئے۔



ساتواں دن: ستمبر ۱۵
بروز اتوار

ملیشیا کے سفر کی پلاننگ کے وقت ہم اکیلے تھے۔ پھر 'لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا'۔ اسی طرز میں واپسی کا سفر بھی الگ الگ تھا۔ طہٰ کو کمپنی سے چھٹیاں بہت کم ملی تھیں، حنین کا بزنس اس کے بغیر پھیکا سا پڑتا جا رہا تھا۔ حنین کی کل اور طہٰ کی پرسو روانگی تھی۔ البتہ میری اور عبد السلام کی ابھی سے ایک ہفتے بعد ساتھ واپسی تھی۔

حسبِ سابق آج بھی دوپہر ۱ بجے اٹھے۔ چھت پر "infinity pool" میں کچھ دیر نہایا اور سیاحت کو چل دیے۔ جمعہ کو جامع مسجد نگارا گئے تھے جہاں کے نظارے دل کو بھا گئے تھے۔ کچھ تحائف اُس دن لیے تھے، کچھ آرڈر دے کر آئے تھے اور آج اٹھانے تھے۔ سو سیاحت کی ابتدا وہیں سے کی۔ وقت کی فراوانی کے سبب مسجد کے سرسبز و شاداب صحن میں کھڑے ہو کر ڈرون کیمرے سے تصاویر بھی بنائیں۔

کئی دن سے دیسی کھانا نہیں کھایا تھا۔ ہمارے لوکل گائیڈ نے ایک پاکستانی ہوٹل کا پتہ بتایا جہاں لذیذ کھانوں کا بفیٹ ہوتا ہے۔ ہم نے دال چنے سے لے کر بریانی پلاو تک تمام ڈشیں چکھیں۔ میٹھے میں رسگللے اور برفی بھی تھے۔ اتنے دنوں بعد دیسی کھانے نے طبیعت کو تازگی بخش دی تھی۔ اس کے بعد ہم "Pavillion Mall" روانہ ہوئے۔

مول توقع سے زیادہ بھڑا ہوا تھا گویا عوام کا سمندر بہہ رہا ہو۔ ذہن میں آیا کہ اتوار کا دن ہے، شام کے چھ بجے ہیں، شاید اس لیے اتنا ہجوم ہے۔ پھر کسی نے بتایا کہ دراصل ۱۶ ستمبر کو "ملیشیا ڈے" ہوتا ہے۔ ۱۹۶۳ میں آج ہی کی تاریخ کو ملائیشین فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کی یاد میں ہر سال اس تاریخ کو عام تعطیل ہوتی ہے اور بڑے جذبے سے اسے منایا جاتا ہے۔ ہم اتفاقاً صحیح وقت پر صحیح جگہ موجود تھے۔ فلمی دنیا کی معروف فرینچائز "Marvel Universe" کے کئی نظارے وہاں موجود تھے۔ سب سے پہلے تو دروازے پر "Iron man" آشِروادھ (یا شاید لعنت) دیتا ہوا دکھائی دیا۔ اندر گئے تو تمام اداکاروں اور اداکاراوں کی ایک فوج ہمارے انتظار میں سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ رابرٹ جانی، سکارلیٹ، سپرمین، ڈاکٹر اسٹرینج وغیرہ کے ساتھ تصاویر کھنچوائیں۔ کچھ دیر مزید مول میں گھومے پھر واپسی ہوٹل کو چل دیے۔ ۹ بجے کے قریب حنین ہمیں الوداع کرتے ہوئے ٹیکسی میں بیٹھا اور ایئرپورٹ روانہ ہو گیا۔ ہمارے گاڑی کے ششکے حنین کے پاسپورٹ پر ہو رہے تھے۔ آج کی رات فراغت بہت تھی مگر گاڑی نہیں تھی۔ صبح طہٰ کی مدینہ کی فلائٹ اور ہماری لنکاوی جزیرے کی فلائٹ تھی تو سوچا آج کی رات گھر میں ہی گزار لی جائے۔



آٹھواں دن: ستمبر ۱۶
بروز پیر

آٹھ بجے کی پرواز تھی اور سات بجے ہماری آنکھ کھلی۔ ایئرپورٹ تک کا رستہ آدھے گھنٹے کا تھا اور سفر کی تیاریاں بھی باقی تھیں۔ ساتھیوں کو اٹھایا، ہاتھ منہ دھویا، کپڑے سمیٹے، تھیلے میں ڈالے اور چلتے بنے۔ نیچے روڈ پر پہنچ کر "Grab" کے انتظار میں کچھ دیر کھڑے رہے۔ ایپ بتا رہی تھی کہ مزید ۵ منٹ انتظار کرنا پڑے گا اور اِدھر ہر لمحہ قیمتی تھا۔ ایک عام ٹیکسی نظر آئی تو اسی میں بیٹھ گئے اور ایئرپورٹ جانے کو کہا۔ ڈرایور سمجھ گیا کہ مسافرین تاخیر سے ہیں، گاڑی بھگاتے ہوئے پوچھنے لگا:

"۸ بجے والی پرواز ہے؟"

"جی"

"لنکاوی جا رہے ہیں؟" ڈرایور سڑکوں کے ساتھ ساتھ پروازوں کی بھی جانکاری رکھتا تھا۔ 

"جی"

"آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو میں مل گیا اور آج حکومتی تعطیل بھی ہے۔ آپ کو ۷:۵۰ تک پہنچا دوں گا، آگے آپکا نصیب" ڈرایور گھڑی دیکھتے ہوئے بولا۔ اس کی بات نے کچھ اطمینان تو دلا دیا تھا مگر ہم احتیاطاً اپنے ذہن میں "Plan B" بنا لیا کہ اگر پرواز چھوٹ بھی جاتی ہے تو کوالہ لمپور کے وہ مقامات دیکھ لیں گے جنہیں غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ ایئرپورٹ پہنچے اور معصومانہ شکل بناتے ہوئے سامنے بیٹھے افسر کو پاسپورٹ اور ٹکٹ دکھائے۔ افسر نے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور بولا جتنا تیز بھاگ سکتے ہو اُس طرف بھاگو۔ پھر کیا تھا، آؤ دیکھا نہ تاو۔ ساتھیوں کی خبر نہ تماشائیوں کی۔ ہانپتے ہانپتے دروازے پر پہنچے اور ٹکٹ دکھایا۔ میڈم نے ٹکٹ کا بغور جائزہ لیا، پھر پاسپورٹ کا۔ ذرا سا چشمہ ٹیڑھا کرتے ہوئے ہمیں بھانپا پھر ہمارے پیچھے بھاگتے ہوئے ساتھیوں پر نظر گھمائی۔ ان کی نزاکت بھری ادائیں مجبوراً برداشت تو کر رہے تھے مگر اندر سے آگ بگولا ہو چکے تھے۔ کچھ دیر مزید کشمکش میں رکھنے کے بعد ہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ پرواز آدھا گھنٹہ متاخر ہے بے فکر رہییے۔ یہ سن کر ہماری جان میں جان آئی۔ ٹھیک بیس منٹ بعد بورڈِنگ شروع ہوئی اور چند ہی منٹوں میں ہم بادلوں کے بیچ تھے۔ جتنا منزل کے قریب پہنچتے موسم اُتنا ہی سہانا ہوتا چلا جاتا۔ منزل سے چند منٹوں کے فاصلے پر تھے تو بارش شروع ہو گئی اور یہ بارش ہمارے ہوٹل پہنچنے تک زور و شور سے ہوتی رہی۔

ہماری استقامت "The Village" نامی ایک ہوٹل میں تھی جو واقعی ایک پورے گاوں جیسا علاقہ تھا۔ ہریالی سے بھرپور زمین جس میں گائے بیل چرھ رہے تھے۔ بلّیاں ملکاوں کی طرح گھوم پھر رہی تھیں۔ ہم نے سامان کمرے میں رکھا اور بارش میں نہانے نکل پڑے۔ ساحل ہماری ہوٹل سے چند قدم کی ہی دوری پر تھا۔ راستے میں ایک عربی ریسٹورینٹ نظر آیا تو وہاں لنچ کے لیے رک گئے۔ موسلادھار بارش کی آواز پورے ریسٹورینٹ میں گونج رہی تھی اور ہم گرما گرم مندی کھاتے ہوئے آگے کی پلاننگ پر نظرِ ثانی ڈال رہے تھے۔ ساحل کے کنارے کچھ دیر ٹہلتے رہے اور پھر اپنی منزل یعنی "Oriental Village" کا رخ باندھا۔


"Oriental Village" ایک منفرد قسم کا مول ہے جس کی چھت نہیں ہے۔ کھلے آسمان کے نیچے یہ دکانوں کا مجموعہ جزیرے کے مغرب میں واقع ہے۔ اس جزیرے میں کئی اشیاء پر ڈیوٹی نہیں پڑتی لہٰذا لوگ یہاں خریداری میں بہت وقت صرف کرتے ہیں۔ ہم مگر یہاں سے صرف یادیں واپس لے جانے کے ارادے سے آئے تھے۔ یہاں کی سب سے معروف قابلِ زیارت جگہ ایک پُل ہے جو "Skybridge" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بادلوں کو چیڑتا ہوا یہ پل زمین سے ۱۲۰ سے زائد میٹر کی بلندی پر ہے۔ یہی وہ تاریخی مقام ہے جہاں شاہ رخ خان نے ڈون فلم میں اپنے وردھان نامی دشمن کو عبرت ناک شکست دی تھی۔ اس بلندی پر پہنچنے کے لیے دو طرح کی کیبل کار موجود تھیں؛ ایک عام سی لوہے کی اور دوسری شیشے کی جس سے شش جہت کے نظارے بآسانی کیے جا سکتے تھے۔ ہم نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا ہوا تھا۔

ٹیکسی سے اُترے اور لکڑی کے بنے ہوئے ایک پُل نما تختے پر سے گزرتے ہوئے وِلیج میں داخل ہوئے۔ بارش ذرا سا تھمنا شروع ہوئی تھی البتہ بادل ابھی چھٹے نہ تھے۔ وقت ضائع کیے بغیر ہم کیبل کار کی طرف گئے۔ شام کے ۵ بج چکے تھے۔ بتایا گیا کہ موسم کے سبب پچھلے چند گھنٹوں سے کیبل کار بند ہے۔ اگر بارش مزید تھمتی ہے تو شروع ہوگی ورنہ کل تشریف لائیے گا۔ اس طرح کے معاملات اس جزیرے کے لیے نارمل تھے اور اس کا اندازہ ہم لگا کر ہی آئے تھے۔ کچھ دیر اُدھر ہی ٹہلتے رہے۔ جب بارش رکی تو ہمیں مدعو کیا گیا۔ کار میں بیٹھے اور آسمان کی طرف روانہ ہوئے۔ وہی بادل جو ہم پر برس کر تھکتے نہ تھے، اب ہمارے روبرو اور زیرِ قدم تھے۔ اور جو اوپر تھے وہ ہمارے شیش محل کی دیواروں پر موتیوں کی پھوہار برسانے لگے۔ ماحول خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہوتا جا رہا تھا۔ ہم دعاگو تھے کہ بارش مزید نہ بڑھے۔ کچھ دیر بعد ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے جو پوری طرح بادلوں کے بیچ چھپی ہوئی تھی۔ یہاں سیڑھیاں لگی ہوئی تھیں جو مزید بلندی پر لے جاتی تھیں۔ نظارے اگرچہ بہت خوبصورت تھے مگر سفر منزل سے خوبصورت تر تھا۔ اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ منزل بادلوں کے بیچ تھی جس کی وجہ سے دھند بہت تھی۔ ایک پل پر سے گزر ہوا جو تالوں کے مابین تھا۔ عشق معشوقی کے مارے اپنی محبتوں کا ثبوت اس مقام پر چھوڑ جاتے تھے۔ پھر ایک "Skypos" نامی ڈاک خانہ نظر آیا۔ لوگ اپنے اعز و اقرباء بلکہ خود کو بھی یہاں سے خطوط بھیج رہے تھے۔ اندھیرا غالب آنے کو تھا تو واپس نیچے اتر گئے۔ نیچے ایک "museum of illusions" تھا جہاں نظر کو دھوکا دینے والی تصاویر موجود تھیں۔ کوئی فریم میں موجود گریا تصویر سے باہر قدم رکھ رہی ہے، تو کوئی کھائی پر سے گزرتا ہوا رستہ محل کو جا رہا ہے۔ میوزیم سے نکلتے نکلتے شام کے ۷ بج چکے تھے اور ہم تھکن سے چور ہوئے جا رہے تھے۔ ٹیکسی منگوائی اور ہوٹل جا کر سو گئے۔



نوّاں دن: ستمبر ۱۷
بروز منگل

آج آسمان کل کے مقابلے قدرے صاف تھا۔ صبح ۱۱ بجے ہم ساحل کے کنارے تھے۔ آج ہم لنکاوی کی سب سے مقبول سرگرمی کرنے والے تھے۔ لنکاوی دراصل ایک جزیرہ نہیں بلکہ ۱۰٤ جزائر کا ایک مجموعہ ہے جن میں سے ٥ جزائر گرمیوں کے مہینوں میں زیرِ سمندر رہتے ہیں۔ ہم اس وقت سب سے بڑے جزیرے پر تھے۔ یہاں سے باقی جزائر کی زیارت کے لیے کشتیاں چلتی ہیں جو "island hopping" کہلاتا ہے۔ یہ کشتیاں متعدد جزیروں پر قیام کرتی ہیں۔ ہر جزیرے کی کوئی نہ کوئی پہچان ہے۔ کسی پر ساحل بہت خوبصورت اور صاف ستھرا ہے، کہیں کے ناریل بہت ذائقہ دار ہیں۔ کہیں کے جنگلات بہت گھنے ہیں تو کہیں چمگادڑوں کے غار بنے ہوئے ہیں۔ ایک جزیرے پر کچھ بندروں سے ملاقات ہوئی جو بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔ ایک جزیرے پر ایسے خوبصورت درخت نظر آئے جن کی جڑیں زمین کے اوپر تھیں۔ ایک جگہ تازے ناریل توڑ کر ساحل کے کنارے اس کا رس نوش کیا۔ یہ پورا سفر ایک نہایت تیز رفتار موٹر بوٹ کے ذریعے کر رہے تھے۔


اس کے بعد ہم "parasailing" کرنے چل پڑے۔ پیراسیلنگ میں ایک شخص کو پیراشوٹ پہنایا جاتا ہے جو ایک مضبوط رسّی سے کشتی کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا ہے۔ کشتی تیز رفتاری سے چلائی جاتی ہے اور وہ بندھا ہوا شخص فضا میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ آدھے گھنٹے کی اس سرگرمی کے بعد ہم نے "jet skiing" کا شوق بھی پورا کیا اور آدھے گھنٹے تک سمندر میں برق رفتاری سے اپنی جان داو پہ لگاتے رہے۔ شام ڈھلنے کو تھی۔ کچھ دیر قریبی ڈیوٹی فری مول کی سیر کی اور پھر آرام کرنے ہوٹل چلے گئے اور رات کے ۱۱ بجے دوبارہ ساحل پہنچے۔

رات کے وقت ساحل پر ایک الگ ہی رونق تھی۔ ٹھنڈی ریت پر کرسیاں اور بِیین بیگ سوفے رکھے ہوئے تھے۔ بون فائر اور حقے کا بھی انتظام تھا۔ بچے جوان، چھڑے جوڑے؛ ہر طرح کے گروپ بنے ہوئے تھے۔ فروٹ، برگر، آیسکریم، مشروبات تمام تر کھانے پینے کے انتظامات بھی تھے۔ تیز آواز میں میوزک بج رہا تھا اور پاس ہی کچھ بچے آگ کا کرتب بھی دکھا رہے تھے۔



دسواں دن: ستمبر ۱۸
بروز بدھ

صبح کے ۸ بجے تھے اور ہم "سکائی ٹریکس ایڈونچر" کرنے جنگل پہنچ چکے تھے۔ اس سرگرمی میں آپ جنگل کے ایک کونے سے داخل ہوتے ہیں اور تین گھنٹے بعد پسینے سے شرابور ہانپتے ہوئے دوسری طرف سے نکلتے ہیں۔ ان تین گھنٹوں میں وہ وزرش ہوئی جو گزشتہ پورے سال میں نہیں ہوئی تھی۔ ابتداء میں ایک درخت پر سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ درخت لگ بھگ ۲ منزلہ اونچا تھا اور سیڑھی لکڑی کی بنی ہوئی تھی جس کے تختے رسّی سے جُڑے ہوئے تھے۔ ابھی قدم رہتا نہیں کہ سیڑھی جھوم کر آگے کو نکل جاتی۔ جیسے تیسے ۱ منزل تک تو چڑھ لیا اور ہماری ہمّت یہیں جواب دے گئی۔ مگر پہلے امتحان میں ہی ہتھیار ڈال دینا غیرت نے گوارا نہیں کیا۔ جیسے تیسے کر کے اوپر کو پہنچے۔ ایک تختہ بنا ہوا تھا جہاں سے اگلی منزل یعنی اگلے درخت تک ziplining کر کے جانا تھا۔ یہ ہماری زندگی میں زِپ لائننگ کا پہلا تجربہ تھا۔ سیڑھی چڑھنا جتنا کٹھن تھا، زِپ لائننگ اتنی ہی دلچسپ محسوس ہوئی۔

زپ لائننگ کا اہم ترین حصہ منزل پر پہنچ کر وہاں قدم جمانا ہے۔ ہمیں گائڈ نے بتایا تھا کہ اگر اگلے تختے پر قدم صحیح سے نہ رکھے تو پھسل کر واپس پیچھے آ جاو گے اور رفتار کم ہونے کے سبب معلق رہ جاو گے۔ ہم نے پوچھا کہ ایسا ہونے پر کیا کیا جائے؟ کہنے لگا ایسا ہونے کی نوبت ہی نہیں آنے دینا۔ اس کے جواب نے ڈرا دیا تھا اور شاید اسی وجہ سے ہم نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور قدم جمانے میں کامیاب ہوئے۔ آگے جال کا بنا ہوا ایک پُل تھا جو قدم پرتے ہی اِدھر اُدھر نکل جاتا تھا۔ اس کے بعد ایک رسی تھی جس پر خود کو بیلنس کر کے چلنا تھا۔ پھر ایک سیڑھی جیسا پل، پھر کچھ معلق تختے، اور پھر کچھ ایسے چیلنج جن کے اردو میں خاص نام بھی نہیں، جیسے:

"monkey bars, cargo net up, flying fox, net bridge, x bridge, sailor board, fishermen net, cable walk"

ہر اگلا چیلنج پچھلے سے زیادہ خطرناک اور کٹھن تھا۔ ہر ایک کو دیکھ کر لگتا کہ شاید یہاں ہماری بس ہوگی۔ پھر نہ جانے کہاں سے ہمّت آ جاتی اور اسے پورا کر لیتے۔ منزل پر پہنچ کر خود کو داد بھی دیتے اور دل ہی دل میں سوچتے کہ خیر اتنا بھی مشکل نہیں تھا جتنا ہم سمجھ رہے تھے۔

تمام چیلنجز مکمل کرنے کے بعد تھکن اتارنے کے لیے تین چار زپ لائننگ کا اہتمام تھا۔ ہم دو سے زائد منزلہ اونچائی پر ایک چھوٹے سے تختے پر کھڑے تھے۔ ہر زپ لائن ہمیں چند میٹر نیچے اور آگے پہنچا دیتی۔ آخری زپ لائن سب سے لمبی تھی جس کے اختتام پر ہم نے کسی تختے پر نہیں بلکہ زمین پر پیر رکھے۔ کچھ دیر آرام کیا، سانس پکڑی اور واپسی ہوٹل چلے گئے۔

دوپہر ۲ بجے "Eagle Square" جانا ہوا۔ یہ جزیرے کے مشرقی جنوب میں واقع ایک علاقہ ہے جس میں ۱۲ میٹر بلند عقاب کا ایک مجسمہ رکھا ہوا ہے۔ اس کے قریب چھوٹے چھوٹے فوارے ہیں۔ کشتی کے ذریعے جو اس جزیرے پر آتے ہیں وہ اسی مقام پر اُترتے ہیں۔ یہاں سے کشتیوں کی رونقوں کے نظارے بہت دلچسپ ہیں۔

ابھی ہم ٹیکسی سے اترے نہ تھے کہ بارش شروع ہو گئی اور لمحہ بہ لمحہ زور پکڑتی گئی۔ ہماری چند گھنٹے بعد کوالہ لمپور کی فلائٹ تھی اس لیے بارش میں بھیگنے سے احتیاط کر رہے تھے۔ کچھ دیر دور سے ہی مناظر دیکھتے رہے۔ پھر خیال آیا کہ نہ جانے آئندہ کب اس مقام پر حاضری ہو، اقبال کے شاہین کے ساتھ دو چار سیلفیاں تو لینا ضروری ہے۔ بچپن کی طرح بے خوف و خطر بارش میں کود گئے۔ ہماری دیکھا دیکھی چند حضرات اور بھی میدان میں اتر آئے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا گویا بچپن پھر سے لوٹ آیا ہو۔

ایئرپورٹ پہنچے، جہاز میں بیٹھے اور رات ۹ بجے کوالہ لمپور میں اپنی ہوٹل پر تھے۔ قریب میں ایک مقامی ریسٹورنٹ ہے جہاں کے مچھلی چاول کافی مشہور ہیں۔ وہاں کا کھانا کھایا اور ہوٹل جا کر سو گئے۔




گیارواں دن: ستمبر ۱۹
بروز جمعرات

آج کا دن تھکاوٹ اتارنے میں ہی صرف کیا۔ گزشتہ دس دنوں میں جب بھی گاڑی کی ضرورت پڑتی تھی، فی گھنٹہ کرایے پر فی الفور نکال لیتے تھے۔ اگرچہ تھوڑا مہنگا پڑتا تھا مگر سہولت لاجواب تھی۔ نہ پارکنگ کی ٹینشن نہ پٹرول کی۔ مگر اب حنین کے چلے جانے کے بعد یہ آپشن نہیں رہا تھا۔ اور آنے والے دنوں میں ہمیں کئی ایسے مقامات جانا تھا جہاں ٹیکسی میں خسارہ نظر آرہا تھا۔ چنانچہ اب ہم نے اگلے ۵ دن کے لیے ایک ساتھ ہی گاڑی کرایے پر نکال لی۔ لنچ کرنے "Sentul Banana Leaf" ریسٹورنٹ چلے گئے۔ یہاں پر کھانا پلیٹوں میں نہیں بلکہ کیلے کے پتّوں پر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ دیسی طرز پر بنے ہوئے دال، چاول، پاپڑ اور اچار نے گھر کی یاد دلا دی۔ کھانا بے حد لذیذ اور ذائقہ دار تھا۔ اس کے بعد شہر کے ڈاون ٹاون علاقے میں بغیر مقصد پیدل گھومتے رہے۔ مقامیوں کے طرزِ زندگی، قانون کی پاسداری اور وقت کی پابندی سے کافی کچھ سیکھا۔ جب سورج ڈھلنے کو تھا تو "Nu Sentral" مول چلے گئے۔ رات ۱۱ بجے سینما میں ہندی فلم "ڈریم گرل" دیکھی اور پھر گھر کو روانہ ہوئے۔

ہمارے ایک عدد چچا ہمارے بچپن سے کویت میں قیام پذیر ہیں جو اکثر اپنے بزنس کے سلسلے میں دنیا گھومتے رہتے ہیں۔ ہمارے شہرِ استقامت کا دورہ کیے ان کو پانچ سے زائد سال گزر چکے تھے۔ زندگی کی دیگر مصروفیات کے سبب رابطہ بھی تقریباً منقطع ہو چکا تھا۔ بس فیس بُک اور انسٹاگرام پر حال احوال کی آگاہی رہتی تھی۔ اِن کو بھی ہماری طرح فوٹوگرافی اور ٹیکنولوجی سے دلی لگاو ہے۔ آج اچانک ان کی کال آ گئی۔ پہلے تو ہم ذرا گھبرا گئے کہ رات گئے کال آئی ہے سب خیریت تو ہے۔ پوچھنے لگے کہ ملیشیا ٹرپ کیسا جا رہا ہے۔

"الحمد للہ بہت زبردست" ہم نے تمام جذبات کو ایک جملے میں سموتے ہوئے کہا۔

"کب تک کی استقامت ہے؟"

"۵ دن اور"۔ ہم عقل کے گھوڑے دوڑانے ہی لگے تھے کہ انہوں نے بتایا کسی کام کے سلسلے میں وہ صبح کی فلائٹ سے ملیشیا آ رہے ہیں۔ ہماری دیگر مصروفیات کے فیس بُک چین اِن سے معلوم پڑا کہ ہم آجکل یہاں ہیں۔ ہم نے کل کی مصروفیات کو ایک دن آگے بڑھاتے ہوئے ان سے کہا کہ شام میں ملاقات کا اہتمام کرتے ہیں۔



بارھواں دن: ستمبر ۲۰
بروز جمعہ

جمعہ کی نماز کے لیے جامک مسجد کا انتخاب کیا تھا جو ہماری استقامت سے زیادہ دور نہیں تھی۔ یہ شہر کی قدیم ترین مسجد ہے اور یہاں دو دریاؤں؛ دریائے کلانگ اور دریائے گومبک کا ملاپ پڑتا ہے جو "river of life" کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے ۱۰ خوبصورت ترین واٹر فرنٹس میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ سیاح اسے "blue pool" کے نام سے بھی جانتے ہیں کیونکہ رات کے وقت نیلی بتیوں سے پورا دریا جگمگا رہا ہوتا ہے۔ اس میں "ڈانسنگ سمفنی فاونٹین" بھی ہے جس میں میوزک کی دھن پر فوارے چلتے ہیں۔ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد قریبی ریسٹورنٹ سے مچھلی تناول کی اور "Pavillion Mall" چلے گئے جہاں چند گھنٹوں بعد چچا جان سے ملاقات کا اہتمام تھا۔ یہ وہی مول ہے جہاں چند روز قبل یومِ ملیشیا منایا جا رہا تھا۔ چچا جان کی ہوٹل سے بھی قریب تھا اور یہاں کی کوفی بھی کافی لذیذ پائی تھی۔

شام ۵ بجے چچا جان سے ملاقات ہوئی اور مول کی نچلی منزل پر ایک کوفی شاپ میں بیٹھ گئے۔ اپنے سفر کی کچھ داستانیں سنائیں، کچھ یونیورسٹی کے بارے میں بتایا، کچھ فوٹوگرافی سے متعلق گفتگو ہوئی۔ انہی گپ شپ میں ڈیڑھ گھنٹہ کیسے گزرا پتہ ہی نہ چلا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ایک آئی ٹی مول ہے جہاں ٹیکنولوجی سے متعلق تمام تر سامان دستیاب ہوتا ہے جس میں کیمرا، موبائل، لیپ ٹاپ، گیمنگ کمپیوٹر، وغیرہ سب شامل ہے۔ گاڑی میں بیٹھے اور آئی ٹی مول کی طرف روانہ ہوئے۔ کئی گھنٹے مول میں گھومتے رہے۔ ٹیکنولوجی کا سامان اتنی وافر مقدار میں اور ایک ہی جگہ پر ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ باقاعدہ ایک پورا فلور مرمت کی دکانوں کا تھا۔ اس سے اگلا فلور پورا لیپ ٹاپ کے لیے مخصص تھا۔ پھر اگلا تصویر کشی سے متعلق اشیاء سے لبریز؛ اور قیمتیں بہت ہی مناسب۔

ڈنر کا وقت ہو چکا تھا۔ ایک تیسرے مول کا رخ باندھا جہاں کھانے کی دکانیں کثرت سے تھیں۔ "Texas Chicken" پر ڈنر کیا اور واپسی ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ چچا جان کی استقامت -- ہوٹل پر تھی۔ ان کے بہت اصرار کرنے پر کچھ دیر اوپر ان کے کمرے میں بیٹھے۔ انہوں نے اپنے کیمرے اور لینسِز کا کلیکشن دکھایا۔ ہوٹل کی جگہ فوٹوگرافی کے حساب سے بہت عمدہ تھی۔ شہر کی مصروف ترین روڈوں کا کمرے کی کھڑکی سے "timelapse" بنایا جا سکتا تھا۔ رات کے ۱۲ بجنے کو تھے۔ چچا جان سے اجازت طلب کی اور اپنی ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔



تیرھواں دن: ستمبر ۲۱
بروز ہفتہ

یونیورسٹی کے کچھ معاملات باقی تھے جو نپٹانے صبح ۱۰ سے دوپہر ۲ تک کا وقت وہاں صرف کیا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شام ۵ بجے چچا جان کی ہوٹل پہنچے اور وہاں سے "bird park" روانہ ہوئے۔ یہ ایک وسیع و عریض، سرسبز و شاداب علاقہ تھا جہاں مختلف قسم کے پرندے موجود تھے۔ کافی اونچائی پر جالیوں کی چھت بنی ہوئی تھی۔ ہم تو کبوتر اور مور کے علاوہ کسی کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ وہاں لکھی معلومات پڑھیں تو پتہ چلا کہ صرف کبوتروں کی ہی درجن اقسام ہیں جیسے "Emerald Dove, Zebra Dove, Nicobar Pigeon, Pied Imperial Pigeon, Victorian Crowned-pigeon" وغیرہ۔ کچھ پرندوں کی تصاویر لیں، کچھ درختوں اور ان کے بیچ خوبصورت پگڈنڈیوں کی۔ سورج ڈھلنے تک ادھر ہی گھومے پھرے۔ قریبی مسجد میں نمازِ مغرب ادا کی اور ڈنر کرنے دوبارہ "Texas Chicken" چلے گئے۔



چودھواں دن: ستمبر ۲۲
بروز اتوار

کوالہ لمپور سے ۲۰۰ کلومیٹر کی دوری پر "Cameron Highlands" نامی ایک ضلع ہے جو سطحِ سمندر سے تقریباً ۱۰۰۰ میٹر بلندی پر ہے۔ یہ ضلع چائے کے باغات کے ساتھ ساتھ اپنے ٹھنڈے موسم، کھیتوں، آبشاروں، ندیوں، جھیلوں، جنگلی جانوروں، گولف کورس اور میوزیم کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ کوالہ لمپور سے یہاں تک کا آدھا رستہ ایک عریض ہائی وے کا ہے۔ اس کے بعد کا رستہ جو چڑھائی کا ہے، بل کھاتا ہوا اور نہایت تنگ ہے کہ ایک وقت میں دو چھوٹی گاڑیاں بمشکل آنا جانا کر سکیں۔ مگر رستہ بہت خوبصورت بنا ہوا ہے۔ ایک طرف ہیبت ناک کھائی اور دوسری طرف وحشت ناک پہاڑ، بیچ میں ایک عدد تنگ سڑک جس میں آنے جانے والوں کے درمیان کوئی بار نہیں، بے تحاشا درختوں اور ہریالی میں چھپی ہوئی ہے۔

صبح کے ۱۱ بجے کریانے سے ناشتہ لیا، کوسٹا کی کوفی لی، پٹرول کی ٹنکی فُل کروائی اور سفر کو روانہ ہوئے۔ وقت اگرچہ دوپہر کا تھا مگر آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ دھیمی دھیمی موسیقی کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ جوں جوں منزل قریب آتی، سڑک مزید تنگ ہوتی چلی جاتی۔ دو گھنٹے کے یادگار سفر کے بعد ایسا وقت آگیا تھا کہ جانے والا رستہ پارکنگ میں بدل گیا، اور آنے والے رستے سے آنا جانا دونوں ہو رہا تھا۔ پانی کے بہنے کی دبی دبی آواز آ رہی تھی۔ ہم بھی گاڑی پارک کر کے آواز کی طرف چل دیے۔ کچھ ہی دیر میں خود کو ایک آبشار کے قریب پایا۔ پانی نہایت صاف اور ٹھنڈا تھا۔ یہ ایک قدرتی آبشار تھا جہاں تیرنے کے لیے دو حصے بنے ہوئے تھے۔ ایک حصہ تھوڑا گہرا تھا اور پانی کا بہاؤ زیادہ تھا لہذا وہاں بہت کم خطروں کے کھلاڑی تھے۔ دوسرا حصہ بچوں بڑوں ہر طرح کے تیراکوں سے بھرپور تھا۔ کچھ وقت وہاں گزار کر ہم دوبارہ وادی کی طرف بڑھے۔


کیمرون ویلی ٹی ہاوس ہماری اگلی قیام گاہ بنا۔ یہ ایک چوٹی پر بنا ہوا چائے ڈھابہ تھا جہاں کی چائے بہت لذیذ اور نظارہ بہت دلکش تھا۔ اسکی بالکونی سے تاحد نظر بل کھاتے مختلف قسم کے "tea garden" نظر آتے۔ تازی اسٹرابیری کی چائے اور چیزکیک لذت سے بھرپور تھے۔

اس کے بعد ضلع کے بقایا معروف مقامات جیسے "strawberry farm, bee farm, lavender garden, rose valley" وغیرہ کی زیارت کی۔ انہی مصروفیات میں شام گزر گئی۔ اندھیرا چھانے سے پہلے واپسی کا ابتدائی رستہ طے کر کے ہائی وے تک پہنچنا تھا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر سفر شروع کر دیا۔ نمازِ مغرب کا وقفہ ہائی وے پر ایک پٹرول سٹیشن پر کیا۔ ہلکا پھلکا کٹک بٹک کیا اور سفر جاری کیا۔

جستجو کھوئے ہووں کی عمر بھر کرتے رہے

چاند کے ہمراہ ہم شب بھر سفر کرتے رہے



پندرھواں دن: ستمبر ۲۳
بروز پیر

آج ہمارا کوالہ لمپور میں آخری دن تھا۔ صبح ۹ بجے چھت پر "infinity pool" میں آخری بار نہایا اور شہر کو الوداع کہنے کی غرض سے پیدل نکل پڑے۔ قریبی مول سنوے پوترا میں ایک آخری کوفی پی۔ کچھ دیر ہوٹل کے علاقے میں گھومتے رہے۔ دوپہر ۱ بجے کا چیک آوٹ اور شام ۷:۲۰ کی فلائٹ تھی۔ بیچ کے چند گھنٹے عظمی کے یونیورسٹی کیمپس میں گزارنے تھے۔ اگرچہ ہم نے ہفتہ قبل ہی ڈگڑی وصول کی تھی، یونیوسٹی لائف دیکھنے کا موقع ہمیں کبھی نہیں ملا۔ یونیورسٹی کی تعلیم ہم نے ایک ٹیوشن سینٹر میں کی تھی جس میں نہ ٹیوشن ملتی تھی نہ اس کی ہیئت کسی سینٹر جیسی تھی۔ آخری کے سال تو دیگر مسائل کے باعث وہ سینٹر بھی بند ہو گیا اور بقایا تعلیم گھر کی چار دیواری میں ہی کی۔

مقررہ وقت سے پہلے ہی چیک آوٹ کر چکے تھے۔ سامان گاڑی میں لادا اور یونیورسٹی کیمپس روانہ ہوئے۔ گاڑی آج شام تک واپس کرنی تھی۔ ارادہ کچھ یوں تھا کہ کیمپس میں وقت کاٹیں گے، پھر سیدھا ایئرپورٹ جائیں گے۔ عظمی وہاں سے واپسی پر گاڑی واپس کرے گا اور اپنے گھر روانہ ہو جائے گا۔

کیمپس میں طلباء سے ان کے حالاتِ زندگی پر گفتگو ہوئی۔ دیگر سہولیات کا بغور جائزہ لیا۔ ہر شخص بحرِ علوم میں غوطہ زن نظر آرہا تھا۔ کوئی ڈجٹل کورنر میں کمپیوٹر پر علم حاصل کر رہا تھا تو کہیں لائبریری میں طلبا اپنے اپنے کورسز کی کتابیں تلاش کر رہے تھے۔ کوئی کلاس کی طرف بھاگ رہا تھا، کوئی کلاس سے چھٹکارا پا کر بریک روم کا رخ باندھے ہوئے تھا۔ اس افراتفری میں بھی سکون نظر آرہا تھا۔ ہم اپنی گزشتہ اسٹوڈنٹ والی زندگی مِس کر رہے تھے۔


فلائٹ سے ۱ گھنٹہ قبل ایئرپورٹ پہنچے۔ عظمی کو الوداع کہا اور جہاز میں بیٹھ گئے۔ حسبِ سابق مدینہ منورہ کا سفر دبئی سے گرز کر تھا البتہ اس بار دبئی میں محض ۳ گھنٹے کا لے اوور تھا۔ بالآخر رات ۳ بجے ہم اپنے وطنِ اصلی، شہرِ استقامت، مدینہ طیبہ منورہ معطرہ کی پرکیف فضاوں میں تھے۔ الحمد للہ رب العالمین۔


360° Virtual Tour


Video Gallery

MalaysiaDiaries - The Whole Tale


Langkawi Archipelago - Montage


Parasailing in Langkawi


Jet Skiing in Langkawi


Skytrex Adventure


Family Tree Art