کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر

فہرست

کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر

بارھویں کے بعد ہماری تمنا تھی کہ چند سال آرام کو ترجیح دی جائے مگر حالات نے واضح کر دیا تھا کہ پیسے کی بہتات میں آرام محال ہے، بامرِ مجبوری یونیورسٹی کا رخ کیا۔ دل کو تسلی ہوئی جب معلوم ہوا کہ ادارہ بھی ہماری طرح تعلیم سے خاص دلچسپی نہیں رکھتا۔

۱۶ مئی، ۲۰۲۰

بارھویں کے بعد ہم مستقبل کی تعلیم کو لے کر کچھ تذبذب کا شکار تھے۔ گھر والے بضد تھے کے پڑھ لکھ کر اُن کا نہیں تو کم از کم اپنا ہی نام روشن کر لیں اور پڑھائی کا نام سنتے ہی ہمارے دماغ کی اپنی بتّی روشنی کھو بیٹھتی۔ قدرت نے ہماری تمنا کا ساتھ دیا اور ہمارے والدین ہمارے کچھ سال پڑھائی سے کنارہ کشی کرنے پر رضامند ہوگئے۔

کچھ ماہ تو خوب عیش و عشرت میں گزرے۔ پھر وقت نے احساس دلانا شروع کر دیا کہ پیسے اور عیاشی کا بہت گہرا تعلق ہے جسے علمِ طبیعیات میں تناسبِ راست کہتے ہیں۔ پیسہ کم مقدار میں ہو تو عیاشی کا میدان بہت مختصر ہو گا۔ یوں سمجھ لیجے کہ اس عیاشی کی معراج سالن میں دو بوٹیوں کا مل جانا ہے۔ پیسہ وافر مقدار میں ہو تو شاہی زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ پیسے کی مزید فراوانی ہو تو قانون سے بھی بالا دستی حاصل ہو سکتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی وہ یقیناً غلط جگہ صرف کر رہے ہیں۔ پیسے سے موجودہ مصائب کا ازالہ براہ راست کیا جا سکتا ہے جو خوشی ملنے کے ہی مترادف ہے۔ مدلل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پیسے کے لیے نوکری درکار ہے۔

اب ہم میں بھلا کوئی قدرتی گُر تو ہے نہیں کہ کوئی کمپنی ہمیں اپنے ہاں مستقل رکھنے پر رضامند ہو۔ نہ ہماری پہنچ اونچے دفاتر تک ہے جن کا دباؤ ہماری کچھ مدد کر سکے۔ شکل و صورت میں بھی کوئی ایسا وصف نہیں پایا جاتا جو ہمیں ماڈلنگ کی طرف کھینچ لے جائے۔ کچھ متفرق شعبوں میں عارضی ملازمتیں کر کے یہ احساس ہوا کہ کامیابی کے لئے کسی مخصوص میدان میں مہارت رکھنا آج کے دور میں ضروری ہے۔

بیرونِ ملک سفر کرنا خاصا دشوار تھا۔ سستے سولیوشن کی تلاش میں یہاں وہاں سے پتہ کروانے پر یہ معلوم ہوا کہ ابھی پچھلے ہی سال ایک ادارہ کھلا ہے جو اسی شہر میں بیٹھے بیٹھے ملائیشیا اور انگلینڈ سے کمپیوٹر سائنس اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں مختلف یونیورسٹیز سے بیچلرز ڈگری کرواتا ہے۔ تحقیق کے بعد ہم نے ان یونیورسٹیز میں سے بائنری یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔

ایڈمیشن

'بائنری یونیورسٹی آف ملائیشیا' بین الاقوامی سطح پر طلباء کو اپنے اپنے ممالک سے ہی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے اور وہاں کی ڈگری حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس یونیورسٹی سے متعلق سعودی عرب میں تمام معاملات ایک ادارہ سنبھالتا ہے۔ ہمارا تمام تر رابطہ اس ادارے سے تھا۔ امتحانات کے پرچے وہاں سے اس ادارے کے حوالے ہوتے اور ہمارے حل کرنے کے بعد دوبارہ ملائیشیا چیک ہونے کے لیے جاتے۔

یونیورسٹی منتخب کرنے کے بعد اب شعبے کا انتخاب کرنا تھا۔ کمپیوٹر سے تو بچپن سے ہی لگاؤ تھا۔ اسی شعبے کو کامیابی (اور کمائی) کا ذریعہ بنانا مناسب جانا۔ لہٰذا ہم بھی کامیاب لوگوں کی طرح اپنے passion کو profession بنانے نکل پڑے۔ اس روشن مستقبل کی راہ پر اپنے جیسے چند مزید "بے کار" حضرات کو ورغلایا اور پہلی فرصت میں بمع داخلہ فیس و ضروری دستاویزات ادارے جا پہنچے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ انٹرنیشنل طلباء کی سیٹس بہت کم مقدار میں ہوتی ہیں اور فوراً بھر جاتی ہیں۔

یونیورسٹی کا باہر سے جائزہ لے کر یوں محسوس ہوا کہ کسی غلط جگہ پہنچ گئے ہیں۔ نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات۔ نہ محمود نہ ایاز۔ ہاں ایک صف نما قالین بچھا ہوا تھا جو ہمیں ڈین صاحب کے کمرے تک لے گیا۔ اس دوران ہمارے دل نے ہم پر یہ حقیقت واضح کی کہ انٹرنیٹ پر جو یونیورسٹی کی عالیشان عمارتیں اور کلاس روم دکھائے گئے تھے وہ صرف ان طلباء کے لیے ہیں جو ملائیشیا جا کر پڑھیں۔ ہماری غریبی نے ہمارے حق میں اس ادارے کو لکھ دیا تھا۔ دل کو تسلّی دی کہ سستے میں یہی ملتا ہے۔

ڈین صاحب نے ہمارے دستاویزات پرکھنا شروع کیے۔ کچھ دیر ہماری میٹرک کی سرٹیفکیٹ کا جائزہ لیا، چشمہ ہلکا سا اوپر کیا اور ہماری طرف ایک نظر گھمائی۔ پھر ایسا ہی مرحلہ ہماری انٹر کی سرٹیفکیٹ کے ساتھ کیا۔ کچھ لمحات خاموشی کے گزرے تو ہم نے معصومیت سے پوچھ ڈالا کہ کہیں ہم لیٹ تو نہیں ہو گئے؟ اب تک کتنے حضرات داخلہ کروا چکے ہیں؟ ارشاد ہوا کہ آپ پہلے ہی ہیں۔

دستاویزات کو اچھے سے پرکھ کر انہوں نے ہمیں بشارت دی کہ آپ اس ادارے کے لیے قابلِ برداشت ہیں۔

پہلا سال

ایڈمیشن ہو گیا، پہلی کلاس کی تاریخ معین ہوگئی، مطلوبہ کتب ڈاؤن لوڈ کر لیں، لیپ ٹاب کا بندوبست بھی کر لیا۔ اب صرف پڑھائی کی موٹیویشن اور اس کو توڑنے والے احباب درکار تھے۔ دو حضرات تو ہم ساتھ لے آئے تھے، باقی دو چار نئے ڈھونڈ کر اگلے تین سال ضائع کرنے کا ارادہ تھا۔

موٹیویشن سے تو اسکول کے دنوں سے ہی چھتّیس کا آکڑا ہے، احباب مگر تلاش کیے بغیر ہی مل گئے۔ بس ایک چھوٹا سا ملال رہ گیا کہ تمام نئے احباب بزنس ایڈمنسٹریشن والے تھے۔ ان کی اور ہماری کلاسز ایک ہی وقت پر الگ الگ کمروں میں ہوتیں جو بہ مشکل ہمارا ایک گھنٹہ توڑتیں۔ اس سے پہلے اور بعد کے چند گھنٹے ہم 'اسنوکر' کھیل کر گزارتے۔ وقت تو یادگار گزر جاتا مگر امتحان کا منظر جب ذہن میں آتا تو بہت اکیلا محسوس کرتے۔ کاش ان نکمّوں میں بھی کمپیوٹر کا کیڑا پایا جاتا۔ نقل کے امکان تقریباً ناممکن تھے۔ اس حقیقت نے وہ لاپتہ موٹیویشن بھی دلا دی اور پہلے سال جان لگا کر محنت کرنے کا جذبہ دے دیا۔

پہلے سال ہمیں ایک عظیم استاد ملے جو ہماری طرح اس ادارے میں نئے نئے آئے تھے۔ ان کا پڑھانے کا انداز اور پروگرامنگ میں مہارت قابلِ تعریف تھی۔ انہی کی بدولت ہماری پروگرامنگ کی بنیاد اچھی بنی اور ان کے ہم زندگی بھر شکر گزار رہیں گے۔ مگر جیسے جیسے وہ ادارے کے حالات سے آگاہ ہوتے گئے،انہیں اپنی امید کی کرنیں سراب میں ڈوبتی نظر آنے لگیں اور آخر کارایک دن اس ادارے سے ناطہ توڑ کر چلے گئے۔ ہم پر البتہ یہ حقائق ابھی تک عیاں نہ ہوئے تھے۔

پہلے سال کے امتحانات کافی بھاری محسوس ہو رہے تھے۔ تیاری اچھی ہونے کے باوجود کمرہ امتحان میں گھبراتے ہوئے قدم رکھا۔ وہاں کے حالات دیکھ کر کچھ تسلّی ہوئی کہ نقل کرانے کا بھاری بوجھ بے چارے اساتذہ نے اپنے ہی کندھوں پر سنبھالا ہوا ہے۔ پہلے تو اسے خواب سمجھ کر آنکھیں ملنے لگے۔ پھر حقیقت کو مانتے ہوئے اپنی کئی ماہ کی محنت پر تھوڑا رنجیدہ ہوئے، مگر آئندہ کے دو سال عیش و عِشرت میں گزارنے کا خیال تسلی بخش پایا۔

اس دن یونیورسٹی کی قدر ہماری نظروں میں کچھ گِر سی گئی۔

دوسرا سال

کمپیوٹر کے شعبے کے واحد استاد یونیورسٹی سے مایوس ہو کر جا چکے تھے لہٰذا ہمیں اپنا شعبہ بدلنے پر مائل کرنے کی کافی کوششیں کی گئیں۔ ضدّی تو ہم بچپن سے تھے اور پہلے سال کی کلاسز نے پروگرامنگ میں مزید دلچسپی بڑھا دی تھی، سو ہم نہ مانے۔ ہم تو یہ دھمکی بھی دے آئے کہ پڑھیں گے تو کمپیوٹر ہی پڑھیں گے ورنہ الوداع کہہ دیں گے۔ ہماری فرمائش پر ادارے نے ایک استاد کا بندوبست کیا اور ہماری کلاسز کا دوبارہ آغاز ہوا۔

استاد تو باپ کی طرح ہوتا ہے اور اس کی عزت بجا لانا تو طالبِ علم کا فریضہ ہے۔ مگر ریاضی کا استاد اگر انگریزی پرھانے کے لیے منتخب کیا جائے تو طلباء کے دلوں میں ادارے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ ادارہ شاید اِس گمان میں تھا کہ تعلیم اور ڈگری دو الگ الگ اشیاء ہیں اور تعلیم چونکہ سبھی ادارے دیتے ہیں، ہم اپنی تمام تر توجہ ڈگری پر رکھیں گے۔جبکہ ہمیں دونوں کی ضرورت تھی۔ بارھویں کے بعد دو سال کی فراغت نے ہم پر یہ تو واضح کر دیا تھا کہ ڈگری محض انٹرویو تک کام آتی ہے جبکہ تعلیم زندگی بھر۔

ڈگری کی تو بکنگ کیے بیٹھے تھے اب بس تعلیم درکار تھی چنانچہ ہم نے انٹرنیٹ کا رخ کیا۔ کئی آن لائن کورسز میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ اس شعبے کے ماہرین سے رابطے قائم کیے۔ معمول کچھ اس طرح بن گیا کہ کلاس اٹینڈ کر کے یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔

ہمارا یہ طریقہ اگرچہ صحیح نہیں تھا، مگر اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ ہماری کشتی بیچ سمندر پہنچ چکی تھی اور اب اس میں دراڑیں پڑتی نظر آ رہی تھیں۔ اب اگر تیر کر ہی جانا ہے تو واپس کنارے کی طرف پلٹ کر زندگی بھر کا افسوس پالیں یا آگے کی طرف تیر کر کامیابی کے جزیرے پر قدم رکھیں۔سو ہم نے دوسرا رستہ چنا۔۔۔ ہاں دل کی تسلّی کے لیے خود سے یہ عہد ضرور کر لیا تھا کہ اب نقل نہیں کریں گے اور امتحان میں وہی کچھ لکھیں گے جو آتا ہے۔ ہمارا یہ منفرد نظامِ تعلیم عام انسان کی سمجھ میں نہیں آ پاتا، اسلئے ہم نے اس کو راز رکھنا ہی مناسب جانا۔

کچھ احباب ہمارے نظریے کے قائل نہ تھے اور اعلانِ براءت کر بیٹھے۔ اب کمپیوٹر کی کلاس میں ہم دو بندے رہ گئے تھے۔ اس شعبے کے واحد استاد جا چکے تھے اور ان کے متبادل اس شعبے کے نہیں تھے۔آخر تنگ آ کر ایک دن ہم نے فیصلہ کیا کہ ادارے کے چیف، استاد الاساتذہ، جنابِ محترم، ڈین صاحب سے رجوع کیا جائے۔ اسی سوچ کے ساتھ ہم ان کے آفس چلے گئے۔

اس دن یونیورسٹی کی قدر ہماری نظروں میں مزید گِر گئی۔

کچھ ڈیین صاحب کی تعریف میں

میمن گھرانے میں پلنے بڑھنے کے فوائد تو اَن گِنت ہیں مگر سرِ فہرست یہ ہے کہ بزنس اور کامیاب بزنس مین حضرات پر خاصی معلومات مل جاتی ہے۔مختصر یہ کہ بزنس مین دو قسم کے ہوتے ہیں؛ ایک وہ جنہیں دیکھ کر دل میں اُن جیسا بننے کی خواہش اُبھرے اور دوسرے وہ کہ ان جیسا نا بننے میں فلاح نظر آئے۔ بظاہر تو دونوں کامیاب ہوتے ہیں مگر ایک دولت و عزت کے مالک ہوتے ہیں اور دوسرے صرف دولت کے۔ ہمارے ڈین صاحب مؤخر الذکر زمرے میں آتے ہیں۔

اگرچہ ہم نے داخلہ کمپیوٹر کی کلاسز میں لیا تھا اور ہماری ڈگری بھی اسی شعبے میں ہماری مہارت کی تصدیق کرتی ہے، لیکن اس کے برعکس یونیورسٹی نے ہمیں بزنس کے بارے میں زیادہ سکھایا۔ کتابی علم تو تمام تعلیمی ادارے فراہم کرتے ہیں، یہاں عملی صورت میں دیکھ کر نسبتاً کم وقت میں زیادہ سیکھ گئے۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ کسی بھی قسم کی معلومات یا مشکل پیش آنے کی صورت میں ڈین صاحب کے توسّل سے ہی یونیورسٹی رابطہ کیا جائے۔ یہ بات معلومات کی حد تک تو صحیح ثابت ہوئی مگر جب کبھی مشکلات کا سامنا آیا، خود کو تنہا پایا۔ ڈین صاحب سے یا تو ان اوقات میں رابطہ قائم نہ ہو پاتا، یا آپ سے یہی اطلاع ملتی کہ یونیورسٹی جواب دینے میں بہت وقت لگا دیتی ہے۔

ہماری ڈگری پر ہمارا نام غلط ہجوں سے لکھا گیا تھا۔ اس پر ڈین صاحب نے کہا کہ نام کے ہجوں میں کیا رکھا ہے۔ پھر ہم نے کہا وزارت خارجہ سے تصدیق کروانے میں دشواری ہوگی، کہنے لگے تصدیق میں کیا رکھا ہے!

اس مباحثے سے تنگ آ کر ہم نے یونیورسٹی سے براہ راست تعلقات قائم کر لیے۔ نام ٹھیک کروانے کے لیے ملائیشیا جا کر یونیورسٹی کے ڈائرکٹر سے بذات خود ملاقات کی اور اس مشکل کا حل نکالا۔

دوسرے سال کا اختتام

چند مہینے قبل ہماری فرمائش پر ایک استاد رکھا گیا تھا۔ آج ہم ڈین صاحب کی آفس اسی استاد کو تبدیل کرنے کی آس لے کر آئے تھے۔ ہماری منفرد فرمائش سن کر ڈین صاحب ذرا چونک سے گئے۔ شاید وہ اس سوچ میں پڑ گئے کہ ہم پڑھائی کے شوقین حضرات ان کا نظامِ تعلیم "خراب" نہ کر دیں۔ پہلے تو انہوں نے ہمیں طلباء کی نظر سے دیکھ کر روایتی جملے دہرائے کہ استاد ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے ضرور آپ لوگ ان کا دیا ہوا کام وقت پر نہیں کرتے ہوں گے۔ ہمارا موقف بتانے کا اندازِ بیاں شاید یہ اشارہ کر رہا تھا کہ ہماری اس ادارے سے آس ٹوٹ چکی ہے۔ اب وہ ہمیں کسٹمر کی حیثیت سے دیکھنے لگ گئے اور مختلف تجاویز پیش کیں۔ شعبہ بدلنے سے لے کر آن لائن کلاسز لینے تک کے مشورے دیے گئے۔

شعبہ تو اب جنون کے ساتھ ساتھ ضد بھی بن چکا تھا، آن لائن کلاسز ہم پہلے سے ہی لینا شروع کر چکے تھے، اور نئے استاد کی امید بھی اب ٹوٹ چکی تھی۔ مایوسی کے ساتھ یہ سوچتے ہوئے واپس لوٹے کہ کسٹمر شاید ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اسی دن فیصلہ کر لیا تھا کہ اس قید سے رہا ہونے پر یہاں کے حالات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ایک کتاب ضرور لکھیں گے۔

تعلیم کے علاوہ باقی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ 'اسنوکر' کے ہم بے تاج چمپئن بن چکے تھے، گرد و نواح کے 'کافی ہاؤس' ہمیں نام سے جاننے لگ گئے تھے، ریسٹورنٹس ہماری آمد سے قبل ہمارا آرڈر تیار کر لیتے تھے، اور والدین ہماری روزانہ تین سے چار گھنٹوں کی کلاسز اٹینڈ کرنے پر ہمیں ایک الگ ہی عزت دینا شروع کر چکے تھے۔

­

امتحان کا وقت قریب آگیا۔ امتحانات میں طلباء سب کے سامنے نقل کرنے میں شاید شرم محسوس کریں اس لیے اب کی بار انہیں امتحان کا پرچہ ان کے گھروں میں ہی حل کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور ساتھ ہی ساتھ بزنس کا اہم ترین اصول بھی سکھا گئے کہ کسٹمر کو کن کن طریقوں سے خوش رکھا جا سکتا ہے۔ ڈین صاحب کی دور اندیشی پر قربان جائیے کہ 2017 میں ہی تین سال بعد 2020 میں آنے والے کرونا وائرس کی تیاری کروادی کہ stay home, stay safe.

ہمارے ضمیر پر ہمارا ڈھیٹ پن کچھ غالب آنے لگا تھا تو اس دن یونیورسٹی کی قدر ہماری نظروں میں کچھ بڑھ سی گئی۔

تیسرا سال

دوسرے سال کے امتحانات طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ پر بھی آسان گزرے۔ یونیورسٹی نے تو خوش رکھا مگر اس سال ہمارے ماتھے پر شکن کی وجہ سعودی عرب کے نئے قوانین بن گئے جن کے تحت ایک غریب بلکہ مِڈل کلاس فیملی کا گزارہ دشوار ٹھہرا۔ فی بندہ تمام فیملی ممبران پر ٹیکس لاگو ہو گیا جس کے سبب کئی حضرات بمع اہل و عیال اپنے وطن عزیز پاکستان واپس چلے گئے۔ طلباء کی خاصی تعداد یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہو گئی جس کے سبب ادارے کو ایک انسٹیٹیوٹ کا کرایہ ادا کرنا بھاری نظر آیا۔چنانچہ آخری امتحانات کی کامیابی دیکھ کر تیسرا پورا سال گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا طے پایا۔

ہم تو پہلے ہی اپنی تعلیم کا ذریعہ انٹرنیٹ کو بنا چکے تھے مگر ہمارے کلاس فیلو پر یہ نیا نظامِ تعلیم حوصلہ شکن گزرا اور وہ بھی پچھلے ساتھیوں کی طرح ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔

نئے قوانین کے ساتھ عیش و عشرت میں کمی کرنا پڑی۔ اب تک ہم پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری بھی شروع کر چکے تھے۔ بزرگوں کی دعا اور ہمارے اچھے نصیب پر رب تعالیٰ کے شکرگزار ہیں کہ نوکری ہمیں اپنے پسندیدہ شعبے میں ہی ملی جہاں سارا کام کمپیوٹر پر ہی کرنا ہوتا تھا۔ کمپنی سے یہ طے پایا کہ اگلے سال جب ہم 'سند یافتہ پڑھے لکھے' کہلائیں گے تو پروگرامنگ کے ڈپاڑٹمنٹ میں منتقل کر دیے جائیں گے۔ اس امید کے ساتھ ہم نے آئندہ کے سالوں میں گزشتہ سالوں سے زیادہ محنت کی۔

امتحانات خیریت سے گزر گئے۔ تین سال تعلیم با مشقت کے بعد ہمیں اطلاع دی گئی کہ اب ہم ملائیشیا جا کر اپنی یونیورسٹی کا دیدار کر سکتے ہیں جس کی ڈگری کی خاطر برسوں محنت کی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس بارٹوپی اچھالنے یعنی 'کنووکیشن' کی تقریب کے مہمانِ خصوصی وہاں کے وزیر اعظم جناب ڈاکٹر مہاتیر محمد خود ہوں گے۔ تقریب کے بعد ایک خصوصی گالا ڈنر بھی منعقد ہوگا جس کے بعد وزیرِ اعظم سے ملاقات اور ان کے ساتھ سیلفی کے امکانات بھی ہوں گے۔


سفر کی تیاری

بیرونِ ملک سفر کا یہ خیال ہمارے ذہن میں پہلی بار نہ آیا تھا۔ اس سے پہلے بھی ہم کئی ممالک کے دورے اپنے خیالی گھوڑوں پر کر چکے تھے۔ ان خوابوں خیالوں کو عملی شکل دی ہوتی تو آج ہمارے سفرناموں سے لائبریریاں بھری ہوتیں۔

ماضی کے تجربوں کے بعد ہم نے مناسب جانا کہ احباب سے سرسری ہی پوچھا جائے، ان کی باتوں پہ تکیہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ ہم نے اکیلے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ مہینوں کی تحقیق و تدبیر کے بعد اب ہم ملائیشیا کے چپے چپے سے واقف ہو چکے تھے۔ ہماری یہ منصوبہ بندی احباب پر پُرکشش ثابت ہوئی۔ تذبذب کے شکار حضرات کو حتمی فیصلہ کرنا آسان ہوگیا۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

جولائی کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ ۱۱ ستمبر کی تاریخ تقریب کے لیے طے پائی تھی۔ مجھ سمیت چار احباب سفر کے لیے ذہنی اور مالی طور پر تیار تھے۔ آفس سے چھٹیاں لی جا چکی تھیں۔ شاپنگ ایک حد تک کی جا چکی تھی۔ ویزا اور ٹکٹ خریدے جا چکے تھے۔ اب روزِ سفر، ۸ ستمبر کا بے صبری سے انتظار تھا۔ اُس روز مبشر، طہٰ، عبد السلام اور حنین کے اس یادگار سفر کا آغاز ہونے والا تھا۔

جاری ہے...

Cover Picture

Mubashir Younus Lakhana

[email protected]
https://fb.com/mylakhana