اسکردو ڈائری

فہرست

اسکردو ڈائری

آوارہ گردی اور گھومنے پھرنے کا شوق ایک بار پھر ہمیں سعودیہ سے اڑا کر کراچی لے آیا تھا، اور اب پہاٰڑوں اور جھیلوں کی پکار ہمیں کراچی سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔آخر کار ہم نے ان کی پکار پر لبیک کہا اور اس بار ہماری منزل اسکردو تھی۔۔۔

کراچی سے اسکردو

آوارہ گردی اور گھومنے پھرنے کا شوق ایک بار پھر ہمیں سعودیہ سے اڑا کر کراچی لے آیا تھا، اور اب پہاٰڑوں اور جھیلوں کی پکار ہمیں کراچی سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔آخر کار ہم نے ان کی پکار پر لبیک کہا اور اس بار ہماری منزل اسکردو تھی۔۔۔

دس دن پر مشتمل یہ سفر سات اپریل ۲۰۱۹، اتوار کی رات نو بجے شروع ہوا جب ہم کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچے۔۔سفر کا آغاز حسب معمول ٹرین کی تاخیر سے ہوا اور نو بجے چلنے والی گرین لائن دس بجے روانہ ہوئی۔۔ کراچی سے ہم چار بندے تھے، میں یعنی یاسر، یاور، مبشر اور ارسلان۔۔۔ہمارا پانچواں ساتھی، جہانزیب لاہور سے ہمارے ساتھ شامل ہونے والا تھا۔۔۔

ابتدائی سفر پھرپور جوش اور جذبے کے ساتھ، کھاتے پیتے، ہنستے کھیلتے گزرا۔۔۔سفر کی ابتدا تھی، جیب بھی بھاری تھی، سو، ٹرین میں اسپیشل چکن کڑاھی بنوائی اور مزیدار ڈنر کیا۔۔۔لاہور پہنچے تو گروپ کا پانچواں ساتھی کافی دیر سے ٹرین کا منتظر تھا۔۔۔آخر کار، چوبیس گھنٹے بعد پیر کی رات دس بجے پنڈی پہنچے۔۔۔ ٹرین کی تاخیر کی وجہ سے اب وقت کم تھا، اور ہمیں یہاں رکے بغیر سیدھا سوات کیلئے روانہ ہونا تھا۔۔۔بھاگم بھاگ فیض آباد پہنچے لیکن رات کی کوئی بس موجود نہ تھی۔۔۔اب فیض آباد سے ٹیکسی کروا کر پشاور روڈ پر واقع ڈائیوو اسٹاپ کیلئے روانہ ہو گئے۔
رستے میں

موبائل ایپ کے ذریعے سوات کی پانچ ٹکٹیں خرید لی تھیں۔۔بارہ بجے کی بس تھی، اور ساڑھے گیارہ بجے ہم فیض آباد میں تھے۔۔جیسے تیسے وقت سے چند منٹ پہلے بس اڈے پہنچ گئے اور سوات کے سفر کا آغاز ہوا۔ بس براستہ مردان، بٹ خیلہ، صبح کے پانچ بجے سوات کے اڈے پر پہنچی۔۔بس سے سامان نکال کر پیدل چند میٹر کے فاصلے پر ناشتے کے ہوٹل میں بیٹھ گئے اور انڈے پراٹھے کا آرڈر دیا۔۔۔ چند منٹوں میں ویٹر ہمارا ناشتہ لایا، اور باہر فدا حسین بھائی اپنی جیپ لائے۔۔۔ یہ ہمارا فدا حسین بھائی کے ساتھ دوسراا سفر تھا۔۔۔اس سے پہلے ہم فدا بھائی کے ساتھ سوات، مالم جبہ، چترال اور کیلاش کا ایک سفر کر چکے تھے۔۔۔

سب نے ساتھ مل کر ناشتہ کیا، جیپ میں سامان لوڈ کیا، سامنے جنرل اسٹور سےکچھ سفر کا ضروری سامان خریدا اور سات بجے ہم اسکردو کیلئے روانہ ہو گئے۔۔یہ عمر، وقت، راستہ۔۔۔گزرتا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں، سفر کا رہا۔۔۔ادھر کا ہی ہوں نا، ادھر کا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں، سفر کا رہا۔۔۔یہ گانا ہمارے اس سفر کی صحیح ترجمانی کر رہا تھا۔۔۔
ٹرین، اور بس کے

سفر کے بعد اب یہاں سے جیپ کا سفر شروع ہوا۔۔۔اب ہمارے اگلے سات دن اسی جیپ میں گزرنے تھے۔۔۔کم و بیش پورا سفر، ہم نے جیپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ارد گرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، مبشر نے فوٹوگرافی کرتے ہوئے، یاور اور ارسلان نے یونیورسٹی کی باتیں کرتے ہوئے اور جہانزیب نے سوتے ہوئے گزارا۔۔۔

ہمارے پلان کے مطابق ہمیں سوات سے براستہ خوازہ خیلہ، بشام، اور پھر شاہراہ قراقرم پر داسو اور چلاس سے ہوتے ہوئے جگلوٹ پہنچ کر پہلا پراؤ ڈالنا تھا ۔۔۔سوات سے جب ہم چلے، کچھ گھنٹے بعد ہی سڑک پر تعمیراتی کام کی وجہ سے رستہ بند تھا اور کئی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔۔۔خوش قسمتی سے یہ رکاوٹ آدھے گھنٹے میں ہٹ گئی، اور ہم پھر سے بشام کی جانب رواں دواں تھے۔۔
بشام پہنچ کر اب ہمارا اور شاہراہ قراقرم کا ساتھ شروع ہوا۔۔شاہراہ قراقرم، جسے شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے، یہ واقعتاً دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔۔۔بیس سال کے عرصے میں بننے والی یہ تیرہ سو کیلومیٹر طویل شاہراہ پاکستان اور چین نے مل کر بنائی تھی، جو دونوں ملکوں کوملاتی ہے۔۔۔اس کی تعمیر میں تقریباً نو سو افراد نے اپنی جان کی بازی دی تھی۔۔۔ قراقرم کے پہاڑوں میں سطح سمندر سے اونچائی پر بنائی جانے والی پختہ شاہراہ کی وجہ سے اسے آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے۔۔۔اگر یہ کہا جائے کہ اس پر سفر کرنے والے کو اس سے عشق ہوجاتا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔۔۔اس کے بل کھاتے موڑ اور نشیب و فراز، نیچے بہتا دریائے سندھ، اور پس منظر میں برف سے ڈھکے پہاڑوں کی چوٹیاں اس کی سحر انگیز خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔۔۔
ہم شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے داسو پہنچے تو دوپہر ہو چکی تھی، اور صبح کا ناشتہ ہضم ہو چکا تھا۔۔۔رستے میں ایک ہوٹل پر رکے اور کابلی پلاؤ کا لنچ کیا۔۔۔شام پانچ بجے ہم چلاس پہنچے، اور ایک چائے کے ہوٹل پر چائے پی کر تازہ دم ہوئے اور سفر بدستور جاری رہا۔۔۔آخر کار، رات دس بجے ہم جگلوٹ پہنچ گئے۔۔۔ بھوک اور نیند سے برا حال تھا۔۔
اڑھتالیس گھنٹوں پر مشتمل یہ سفر کراچی سے اتوار رات دس بجے شروع ہوا تھا اور اب تک تقریباً اکیس سو کیلو میٹر طے کر کے ہم منگل رات دس بجے جگلوٹ پہنچے تھے۔۔۔اور مزے کی بات یہ کہ ہماری اصل منزل اسکردو ہم سے مزید ایک دن کی مسافت پر تھی۔۔۔
جگلوٹ شہر کے باہر ہی قراقرم ہائے وے پر واقع ایک ٹرک اڈے نما ڈرائیور ہوٹل پر جیپ روکی۔۔۔ ارد گرد مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سنسان ماحول تھا۔۔۔ کاؤنٹر کے نیچے ایک خان صاحب سوئے ہوئے تھے۔۔ انھیں اٹھایا اور کمرے کا پوچھا۔۔۔ یہ ہوٹل ہماری پہلی، آخری اور واحد امید تھا۔۔کمرہ خالی تو تھا۔۔ مگر اس کی چابی نہیں مل رہی تھی۔۔ خان صاحب آدھے جاگے، آدھے سوئے، چابیوں کا ایک گچھا لے کر آَئے، اور ایک ایک کر کے ہر چابی آزمائی۔۔ایک چابی لگ گئی، اور دروازہ کھل گیا۔۔ کمرہ ویسا ہی تھا جیسا کسی ٹرک اڈے کے ہوٹل کا ہوتا ہے۔۔ہمارے لیے یہی بہت تھا۔۔۔
کمرے کا کرایہ طے کر کے ہم ہوٹل کے باہر گھاس میں لگے تخت پر بیٹھ گئے اور کھانے کا آرڈر دیا۔۔۔ رات کافی ہو چکی تھی، اس لئے کھانے میں صرف سبزی اور دال ہی تھی۔۔۔ہمارے لیے یہ بھی بہت تھا۔۔ پانچ سو کا کھانا، اور سات سو کا ہوٹل ، چھ بندوں کے حساب سے کیا برا تھا۔۔
کھانا کھا کر کمرے میں گئے، موبائل اور کیمرہ چارجنگ پر لگایا، اور کپڑے بدل کر پھر نیچے آگئے۔۔ہوٹل کے احاطے میں کئی درخت تھے، اور نیچے گھاس اگی ہوئی تھی۔۔قریب ہی پانی کیلئے ایک رستہ کھودا ہوا تھا، جس سے ٹھنڈا بہتا پانی شور کرتا ہوا گزر رہا تھا ۔۔ہوٹل کی سیڑھیاں کافی خطرناک تھیں۔۔سیڑھیوں اور پہلی منزل کی کوئی دیوار نہیں تھی، بس چھوٹی سی راہداری تھی، اور پھر کمرہ۔۔ یعنی اگر کمرے سے نکل کر چار قدم بے خیالی میں آگے بڑھائیں، تو سیدھا گراؤنڈ فلور پر پہنچ جائیں گے۔۔۔البتہ ہم نے یہ شارٹ کٹ نہیں آزمایا اور سیڑھیوں سے اتر کر نیچے باغ میں ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔۔۔ تاش کا دور شروع ہوا۔۔۔کچھ رنگ، کچھ بلف، کچھ گپ شپ، کچھ گھر والوں سے آخری گفت و شنید، کچھ سوشل میڈیا پر چیک ان۔۔۔کیونکہ اب یہاں سے آگے اسکردو تک نیٹ ورک کی امید نہیں تھی۔۔۔بارہ بجے تک یہ مشغلہ جاری رہا، اور پھر واپس کمرے میں آگئے۔کمرے میں چار دیواری کے علاوہ کچھ نا تھا۔۔۔اور ہمیں کچھ چاہئے بھی نہیں تھا۔۔۔ بستر پر لیٹے ہوئے، ہمیں اڑھتالیس گھنٹے گزر چکے تھے۔۔ پچھلی رات ڈائیوو میں چند گھنٹے کی نیند کی تھی، اور اس سے پچھلی رات گرین لائن میں چند گھنٹے نیند کی تھی۔۔۔تھکن سے چور، زمین پر چھ میٹریس بچھائے، اور سب سو گئے۔۔۔
صبح اٹھے تو تھوڑی چہل پہل ہو چکی تھی۔۔ رات کے سناٹے میں یہ ہوٹل ایسے ہی لگ رہا تھا جیسے جنگل کے بیچ کوئی ڈراؤنا سا آسیب زدہ ہوٹل ہو۔۔اب دن کی ہلکی ہلکی روشنی میں اتنا ڈراؤنا بھی نہیں تھا۔برف جیسے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھویا، کپڑے بدلے، انڈے پراٹھے اور چائے کا ناشتہ کیا، شاہراہ ریشم کے ریشم کی طرح بل کھاتے موڑ پر فوٹو سیشن کیا، اور قراقرم ہائے وے پر بقیہ چند کیلومیٹر کا سفر شروع کر دیا۔۔۔جگلوٹ سے چند کیلومیٹر آگے ہمیں شاہراہ قراقرم کو خیرباد کہنا تھا، اور گلگت اسکردو روڈ پر آجانا تھا۔۔۔
جگلوٹ ایک منفرداور تاریخی حیثیت کا شہر ہے۔۔ یہاں دنیا کے تین عظیم الشان پہاڑی سلسلے اور دو دریا ملتے ہیں۔۔۔ جگلوٹ سے نکل کر کچھ کیلومیٹر آگے جاتے ہیں تو ایک جنکشن آتا ہے۔۔۔یہ وہ ویو پوائنٹ ہے جہاں سے یہ تین پہاڑی سلسلے بیک وقت نظر آتے ہیں۔۔۔ دائیں جانب سلسلہ کوہ ہمالیہ، سامنے سلسلہ کوہ قراقرم، اور بائیں جانب سلسلہ کوہ ہندوکش ہے، جو اس مقام پر باہم ملتے ہیں۔۔۔اور نیچے دریائے سندھ دریائے گلگت سے ملتا ہے۔۔۔ان دو دریاؤں کے ملنے والے مقام کے بارے میں لوک داستانیں مشہور ہے کہ یہاں جنات اور پریاں نہانے آتے ہیں۔۔۔ جنات سے تو ہمیں کوئی غرض نہیں تھی، ہاں پریاں دیکھنے کی کافی کوشش کی، لیکن کچھ نظر نا آیا۔۔۔البتہ پٹھان ٹرک ڈرائیور اپنے اپنے ٹرک نہلا رہے تھے۔۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں سنو لیپرڈ یعنی 'برفانی چیتے' اور مارخور پہاڑوں سے اتر کر پانی پینے آتے ہیں۔۔۔لیکن ہمیں وہ بھی نظر نہیں آئے۔۔
پہاڑوں کے درمیان ہمارا سفر جاری تھا۔۔۔ ان پہاڑوں میں زمرد(ایمیرلڈ)، یاقوت (روبی) اور زرقون وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔۔۔ہماری دائیں جانب پہاڑوں پر کوئی چھوٹی مخلوق رینگتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔ فدا بھائی نے بتایا کہ یہ یہاں کے مقامی لوگ ہیں جو ان پہاڑوں سے قیمتی پتھر نکالتے ہیں۔۔۔پہاڑوں پر چڑھ کر رسے باندھ کر، ان رسوں سے لٹک کر چھوٹے چھوٹے غار بنا کر ان میں رہتے تھے۔۔۔غار کیا تھے، چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے، جن میں انسان کھڑا بھی نا ہو سکے۔۔۔کھدائی کیلئے چھوٹے چارجز لگا کر بلاسٹ کرتے، اور پھر پتھر توڑ کر ان میں سے قیمتی پتھر تلاش کرتے۔۔۔ بہت خطرناک قسم کا ذریعہ معاش تھا۔۔
چند کیلو میٹر آگے جا کر ہمارا شاہراہ قراقرم پر سفر ختم ہو گیا اور عالم پل سے ہم اسکردو کیلئے مختص رستے پر چلے گئے۔۔۔راستے میں کئی مقامات پر تعمیراتی کام کی وجہ سے رکنا پڑا۔۔۔یہ رکنے، چلنے کا سلسلہ اسکردو تک یونہی چلتا رہا۔۔۔کہیں آدھے گھنٹے میں رستہ کھل گیا، اور کہیں پانچ گھنٹے بھی انتظار کرنا پڑا۔۔۔ شلوار قمیض میں ملبوس سینکڑوں لوگوں کے درمیان ہم اکلوتے جینز ٹی شرٹ والے تھے۔۔سونے پہ سہاگہ، ہم نے سردی اور برف کے پیش نظر فوجیوں والے ایک ایک کلو کے بوٹ اورتین تین کلو کے برفانی جیکٹ بھی پہن رکھے تھے۔۔۔ ہر رکاوٹ پر ارد گرد کے مقامی لوگوں کا ہجوم ہوتا اور ہم سب کی توجہ کا مرکز ہوتے۔۔۔
شام کے وقت ایک موڑ پر پہنچے تو آگے کام جاری تھا، اور رستہ بند تھا۔۔۔ بلاسٹنگ کی وجہ سے کافی بڑے بڑے پتھر سڑک کے بیچ میں گرے ہوئے تھے، جنھیں ہٹانے کیلئے موجود مشینری ناکافی تھی۔۔ لہذا قریبی شہر سے مزید ہیوی مشینری منگوائی جا رہی تھی۔۔۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہاں ہمیں کم سے کم بھی تین، چار گھنٹے رکنا پڑے گا۔۔۔ وقت گزرتا گیا اور ہمارے پیچھے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار جمع ہو گئی۔۔۔ یہاں ہماری ملاقات ایک آسٹریلین بائیکر سے ہوئی جو اسکردو جا رہا تھا۔۔ ہمارے علاوہ شاید وہ اکیلا سیاح تھا، اور باقی سینکڑوں کی تعداد میں موجود سب لوگ مقامی تھے۔۔جہاں مقامی لوگ اس تعمیراتی کام کی وجہ سے اس رکاوٹ پر پریشان تھے، وہاں ہم پانچ خوار، جیپ سے چادر نکال کر سڑک کے بیچوں بیچ بیٹھ کر پتے کھیلنے میں مگن تھے۔۔۔ تھوڑی دیر گزری کہ ایک ایک کر کے کئی لوگ ہمارے ارد گرد جمع ہو گئے اور تقریباً آدھا گھنٹا گزرنے کے بعد ہمارے گرد ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا، جو بڑے شوق سے ہمیں 'رنگ' کھیلتا دیکھ رہا تھا۔۔۔ ہم چونکہ اتنے بڑے ہجوم کا مرکز بنے ہوئے تھے، سو آتی جاتی آرمی کی گاڑیاں بھی ہمیں رک کر دیکھتیں، اور سلام کر تیں۔۔۔
یہ چلنے رکنے کا سلسلہ جاری رہا اور ہم بمشکل رات نو بجے اسکردو میں داخل ہونے کو تھے کہ اسکردو کیڈٹ کالج کے مین گیٹ کے سامنے ہماری جیپ کا ٹائر پنکچر ہو گیا ۔۔۔چاروں طرف مکمل خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔ہمارے پاس اسپئیر ٹائر تو تھا، لیکن جب جیک نکال کر لگانے لگے، تو پتہ چلا کہ ہائیڈرولک فلیوڈ لیک ہو چکا ہے، اور اب جیک ناکارہ ہے۔۔۔اب ہم ہر آتی گاڑی کو ہاتھ دے کر روکتے، اور ان سے جیک کا پوچھتے۔۔۔ آخر کار، ایک مہربان ڈرائیور نے جیک دیا، اور ٹائر بدل کر ہم پھر سے آگے بڑھے۔۔۔یہ ہمارے سفر کا پہلا پنکچر تھا، اور ابھی دو مزید پنکچر ہمارے منتظر تھے۔۔۔
اسکردو میں داخل ہوئے، تو گیارہ بج چکے تھے، لیکن ہماری توقع کے خلاف، شہر جاگ رہا تھا۔۔۔بھوک کی شدت نے مجبور کیا کہ پہلے کچھ کھایا جائے، اور رہنے کا بندوبست اس کے بعد کیا جائے۔۔۔فدا بھائی کے کسی جاننے والے نے اسکردو سٹی ان ریسٹورنٹ کا بتایا اور ہم وہاں کھانے چلے گئے۔۔۔یہاں کے ذائقے دار کھانے نے ہماری ساری تھکن اتار دی، اور ہم پھر سے تازہ دم ہو کر رہائش کا بندوبست کرنے نکل پڑے۔۔۔
اسکردو میں ہمارا تین دن قیام کا ارادہ تھا۔۔ اسلئے ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس ایسا چاہئے تھا، جہاں بنیادی سہولیات بھی ہوں، اور شہر سے زیادہ دور بھی نا ہو۔۔۔ کئی ہوٹل گھومے۔۔کچھ بجٹ سے باہر تھے، کچھ شہر سے۔۔۔ کسی میں سناٹا بہت تھا کہ بھوت بنگلے کا گمان ہوتا تھا، تو کسی میں پارکنگ نہیں تھی۔۔۔زیادہ ہوٹل ایسے تھے جن میں چار بندوں سے زیادہ کا کمرہ نہ تھا، جبکہ ہمیں چھ بندوں والا کمرہ چاہئے تھا۔۔بالآخر فدا بھائی کے جاننے والے کے توسط سے المدینہ گیسٹ ہاؤس ملا۔۔۔ ریٹ مناسب، کمرہ کشادہ، اور پارکنگ کی سہولت موجود تھی۔۔سو، یہاں ڈیرہ ڈال دیا۔۔۔ یہ ہماری منزل تھی، اور اس تک پہنچنے میں ہمیں پورے تین دن یعنی بہتر گھنٹے لگے تھے، جس میں سے آٹھ گھںٹے ہوٹل میں کمرہ لے کر سوئے تھے، جبکہ بقیہ چونسٹھ گھنٹے مسلسل سفر میں گزرے تھے۔۔۔
پہلا دن۔۔۔گیارہ اپریل۔۔۔جمعرات
اسکردو میں لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ تھی۔۔۔بہت زیادہ سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں رات سات بجے سے صبح سات تک بجلی نہیں ہوتی تھی۔۔۔صبح سات بجے لائٹ آتی، اور ہم گیسٹ ہاؤس سے نکل جاتے۔۔۔رات کو سات، آٹھ بجے جب ہم واپس آتے، تو لائٹ جا چکی ہوتی۔۔۔ موسم کے حساب سے رات کو پنکھے وغیرہ کی ضرورت تو نہ تھی، لیکن ہمارے لئے بجلی کا سب سے اہم استعمال موبائل اور کیمرہ چارج کرنا ہوتا تھا۔۔۔ ہم نے مینیجر سے بات کی اور رات کو ایک لیٹر پٹرول منگوا لیا اور جنریٹر پر اپنے موبائل چارج کیے۔۔ہمارے سونے سے قبل ہی پٹرول ختم اور جنریٹر بند ہو چکا تھا ۔اگلی رات ہم نے دو لیٹر پٹرول منگوایا، اور اس سے اگلی رات ڈھائی لیٹر۔۔۔
پہلے دن صبح آٹھ بجے اٹھے۔ یہ گیارہ اپریل کی صبح تھی۔ ناشتے کیلئے مختلف ہوٹل گھومتے پھرتے یادگار چوک کے پاس ایک ہوٹل پر پہنچے، جس میں پراٹھہ بنانے والا بندہ کراچی کا تھا۔۔ آملیٹ، پراٹھے اور گرم گرم چائے کا ناشتہ کیا۔۔۔اس ہوٹل کے ناشتے میں اتنا مزہ آیا کہ اگلے تین دن ہم یہیں ناشتہ کرتے رہے۔۔۔
آج کے پلان کے مطابق ہمیں شگر جانا تھا اور اسی ارادے سے ہم نے رخت سفر باندھا۔۔۔جیپ چلتی رہی، گپ شپ ہوتی رہی، فوٹوگرافی چلتی رہی۔۔۔یہ اپریل کا مہینہ تھا اور چیری بلوسم کا موسم تھا۔۔۔ چیری کے درختوں نے پورے اسکردو کو سرخ و سفید کر دیا تھا۔۔۔سڑک کے دونوں کنارے قطار در قطار لگے چیری کے سرخ اور سفید درخت انوکھا منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔جب ہوا چلتی تو سفید پتے درختوں سے گرتے، اور پوری سڑک پر پتیوں کی چادر بچھ جاتی۔۔۔ان درختوں، پھولوں، اور پتیوں کا قدرتی حسن، نا کسی کیمرے کی آنکھ محسوس کر سکتی ہے، نا الفاظ بیان کر سکتے ہیں۔۔۔بھلا انسانی آنکھ اور کیمرے کی آنکھ کا کیا موازنہ۔۔۔یہ حسن دیکھنے سے زیادہ محسوس کیے جانے کا متقاضی تھا۔۔۔اور کیمرے کی آنکھ میں احساس کہاں سے لایا جائے۔۔۔
اسکردو سے باہر نکل کر ہم شگر کو جانے والا رستہ بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے، اسکردو کارگل روڈ پر کافی آگے نکل گئے۔۔۔اب پھر سے پیچھے جانے کے بجائے ہم نے منٹھوکا آبشار کو اپنی نئی منزل بنایا۔۔۔ کافی دیر تک سفر کرنے کے باوجود جب منٹھوکا آبشار نہیں آیا، تو مقامی لوگوں سے دریافت کیا، تو پتہ چلا کہ منٹھوکا جانے والا رستہ بھی ہم کافی پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔۔۔ اب ہماری تیسری منزل اسکردو کے ضلع کھرمنگ میں واقع خاموش آبشار تھی۔۔ خاموش آبشار اسکردو کارگل روڈ پر بارڈر سے محض تیس کیلومیٹر دور ہے۔۔۔
پچھلی غلطیوں سے اتنا سیکھ لیا تھا کہ اب ہر گزرتے بندے سے خاموش آبشار کا پوچھنے لگے۔۔۔ پتہ چلا کہ اب ہم اپنی منزل سے صرف پانچ منٹ کی دوری پر ہیں۔۔۔پانچ منٹ بعد پھر رستہ پوچھا، پتہ چلا اب بھی پانچ منٹ دور ہے۔۔۔ یہ سلسلہ چلتا گیا۔۔ وقت جیسے تھم سا گیا ہو، کئی کیلومیٹر سفر کرنے کے باوجود، جب بھی کسی راہگیر سے خاموش آبشار کا پوچھتے، تو جواب ہوتا، بس پانچ منٹ آگے ہے۔۔۔ ناجانے ان کا وقت سست روی کا شکار تھا، یا ہماری گھڑیاں تیز تھیں۔۔ خیر، کئی کیلومیٹر کا سفر کرتے رہے، اور ہر موڑ پر یہ گمان ہوتا کہ بس اب آیا آبشار۔۔۔آخر کار، ایک موڑ آیا، اور ساتھ ہی پانی گرنے کی آواز آنا شروع ہوئی۔۔۔خاموش آبشار خاموش ہرگز نہیں تھا۔۔۔
پتھریلی چٹانوں سے گرتا پانی، اور نیچے کچھ جگہوں پر پڑی برف، جو اب تک پگھلی نا تھی، اور ارد گرد سناٹا۔۔۔یہاں کوئی ہوٹل، دکان وغیرہ نہ تھی، اور اس پورے علاقے میں ہم چھ بندوں کے علاوہ اور کوئی انسان نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ آبشار کے پانی اور برف سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دو گھنٹے گزر گئے، جب ہم نے واپسی کا ارادہ کیا۔۔

 

Cover Picture

Yasir Younus

[email protected]